عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تو حدیث کی رو سے شکار کو حرم سے بھگانا حرام ہے پس جب اس نے شکار کو حرم سے نکال دیا تو ضمان کا سبب پایا گیا پس اس کا کفارہ ادا کرنا جائز ہے اور جب کفارہ ادا کردیاتو وہ ملکِ خبیث کے ساتھ اس کا مالک ہوگیا اسی لئے فقہا نے کہا ہے کہ اس کا کھانا مکروہ ہے اور جب فقہا کراہت کو مطلق طور پر ذکر کرتے ہیں تو اس سے مراد کراہت تحریمی ہوتی ہے پس یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جزا ادا کرنے کے بعد اس جانور کو حرم میں واپس لوٹانا واجب ہے ۸؎ (۱۰) اگر شکار کاجانور خود حرم سے نکل کر حل میں آجائے تو اس کو پکڑنا جائز ہے کیونکہ اب اس کے حرم کا شکار ہونے کی صفت حل کا شکار ہونے کی طرف منتقل ہوگئی اور اگر کسی نے اس کو حرم سے نکا لا ہے خود نہیں نکلا تو اس کا پکڑنا حلال نہیں ۱؎ اسلئے کہ شکار کو حدودِحرم سے باہر نکال دینے کے بعد وہ شرعاً امن کا مستحق رہتا ہے اور اس کو اس کے مأمن کی طرف لوٹانا واجب ہے ۲؎ (جیسا کہ اوپر ہرنی کے مسئلہ میں بیان ہوچکا ہے،مؤلف) (۱۱) اگر کسی شافعیؒ نے حل کے شکار کو حدودِ حرم میں داخل کردیا پھر اس نے اس شکار کو حدودِ حرم میں ذبح کردیا تو حنفی کو اس کاکھانا جائز نہیں ہے کیونکہ فقہا نے کہا ہے کہ اگر شافعی نے بکری ذبح کی اور جان بوجھ کر بسم اﷲ پڑھنا ترک کردیا تو وہ مردار ہے حنفی کے لئے اس کاکھانا حلال نہیں ہے پس اسی طرح یہ مسئلہ بھی ہے ۳؎ (۱۲) اور شکار تین چیزوں میں سے کسی ایک کے ساتھ مامون ہوجاتا ہے یعنی شکاری کے احرام میں ہونے سے یا شکاری کے حدودِحرم میں داخل ہونے یا شکار کے حدودِ حرم میں داخل ہونے سے ۴؎ (جیسا کہ پہلے بیان ہوچکاہے ) اگر کسی حلال نے حدودِ حرم کے اندر سے حل کے شکار پر تیر مارا تو وہ اس شکار کا ضمان دے گا اور اسی طرح اگر کسی حلال نے