عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
دے گا ۲؎ اور اس سے معلوم ہوا کہ اگر ہرنی حدودِحرم سے نکا ل دینے کے بعد حاملہ ہوگئی تواس کی جزا کا حکم بھی اسی مذکورہ تفصیل کے مطابق ہے ۳؎۔ اور ابن سماعہؒ نے امام محمدؒ سے روایت کی ہے کہ جس شخص نے شکار کو حدودِ حرم سے حل کی طرف نکال دیا تواس شکار کو ذبح کرنا اور اس کے گوشت سے نفع حاصل کرنا حرام نہیں ہے اس نے اس شکار کی جزا ادا کردی ہو یا ادا نہ کی ہو لیکن میں اس کا یہ فعل مکروہ سمجھتا ہوں اور میرے نزدیک پسندیدہ یہ ہے کہ وہ اس کے کھانے سے دور رہے اھ ۴؎ اور اگر اس گوشت کو بیچ دیا اوراس کی قیمت سے اس کی جزا میں مدد حاصل کی تو یہ اس کے لئے جائز ہے کیونکہ کراہت کھانے کے حق میں مخصوص ہے ۵؎ اور خریدار کو اس سے نفع اٹھانا جائز ہے جیسا کہ فتاویٰ قاضی خاں میں ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اس کی بیع باطل ہے ۶؎ فتح القدیر میں ہے کہ غوروفکر کا تقاضایہ ہے کہ اگروہ شخص اس ہرنی کو اس کے مأمن کی طرف لوٹا کردوبارہ اس کا امن بحال کردینے پر قادر ہے تو اس کی جزا اد کردینے سے وہ جزا اس کاکفارہ واقع نہیں ہوگی اوراس کے بعد اس کو اس ہرنی کے درپے ہونا حلال نہیں ہوگابلکہ اس کے درپے ہونے کی حرمت بدستور قائم رہے گی اور اگر وہ اسکو اس کے مأمن میں لوٹا نے سے عاجز ہے مثلاً جب اس نے اس ہرنی کو حل کی طرف نکال دیا تووہ حل میں کہیں بھاگ گئی اب وہ شخص اس کی ذمہ داری سے بری ہوگیا پس اس صورت میں کفارہ ادا کرنے کے بعد اسی ہرنی کی جواولاد پیدا ہوگی اگر وہ اولاد مرجائے تو یہ اس کا ضامن نہیں ہوگا اور اس کے لئے اس کا شکار کرنا جائز ہے ۷؎ اوربحر الرائق میں ہے کہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یاتو شکار کو حرم سے نکالنے والا شخص محرم ہوگا یا حلال ہوگا پس اگر وہ محرم ہے تو بلا شبہ ضمان کا سبب یعنی شکار کے درپے ہونا پایا گیا ہے اور اگر نکالنے والاشخص حلال ہے