عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
ہوگا جیسا کہ اس قسم کے نظائر سے معلوم ہوتا ہے اور حرم کا درخت کاٹنے میں درخت کی جڑ کا اعتبار ہوگا اور اس کی ٹہنیوں کااعتبار نہیں ہوگاکیونکہ ٹہنیاں درخت کے تابع ہیں ( جیسا کہ اس کا بیان آئے گا ،مؤلف) ۳؎ پس اگر پرندہ ایسی ٹہنی پر ہوگا جو حرم کی حد میں واقع ہوے تو اس کا شکار کرنا جائز نہیں ہے اگرچہ اس درخت کی جڑ حل میں ہو اور اگر پرندہ ایسی شاخ پر ہے جو حل میں واقع ہے تو اس کا شکار کرنے میں مضائقہ نہیں ہے اگرچہ اس درخت کی جڑ حرم میں ہو، شکار کے پاؤں کی جگہ کو دیکھا جائے گا درخت کی جڑ کو نہیں دیکھا جائے گا کیونکہ شکار کا ٹھہرنا اس کے پاؤں کے ساتھ ہے ۴؎ شکار کے حدودِ حرم میں ہونے سے یہ مراد نہیں کہ وہ حرم کی زمین پر ہی ہو کیونکہ اس کاحرم کی زمین پر ہونا شرط نہیں ہے اس لئے کہ اگر پرندہ حرم میں ہے لیکن حرم کی زمین پر نہیں ہے تب بھی وہ حرم کا شکار ہے کیونکہ ہ اس میں داخل ہوگیا ہے اور اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’وَمَنْ دَخَلَہ‘ کَانَ اٰمِنًا‘‘ (یعنی جو جاندار اس (حرم) میں داخل ہوگیا وہ امن میں ہے) اور حرم کی ہوا ( فضا) بھی حرم ہی کے حکم میں ہے ۵؎ اس لئے اگر کوئی اڑتے ہوئے جانور کو مار کر اوپر سے اوپر ہی پکڑلے تب بھی جزا واجب ہوگی ۶؎ اور اسی طرح یہ بھی شرط نہیں ہے کہ شکار کرنے والا شخص حرم میں زمین پر ہو(مؤلف) پس اگر کوئی شخص کسی درخت کی اس شاخ پر ٹھہر ا جو حل میں واقع ہے اور اس درخت کی جڑ حرم میں ہے اور اس نے حل کے شکار پر تیر پھینکا، یا وہ شاخ ( جس پروہ شخص ٹھہر ا ہوا ہے) حرم میں ہے اور درخت اور شکار دونوں حل میں ہیں تو شاخ پر ٹھہرنے والے شخص کا حکم بھی ٹہنی پر بیٹھے ہوئے پرندے کی مانند ہونا چاہئے پس پہلی صورت میں اس پر کچھ ضمان (کفارہ ) واجب نہیں ہوگااور دوسری صورت میں اس پر ضمان واجب ہوگا ۷؎