عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
(۶) اگر کسی محرم یا حلال نے شِکرا یا باز ( یا کوئی اور شکاری پرندہ) حدودِ حرم میں داخل کیا تو اس پر اس کو چھوڑنا واجب ہے جیسا کہ اوپر تمام شکاری جانوروں کے چھوڑنے کے متعلق بیان ہوا ہے پس اگر اس نے اس کو چھوڑدیا اور اس شِکرے یا باز نے حرم کے کبوتروں کو مارنا شروع کیا تو اس چھوڑنے والے شخص پر کچھ واجب نہیں ہوگا کیونکہ اس پر اس کو چھوڑدینا واجب تھا چنانچہ اس نے اس کو چھوڑدیاتو اب اس کے بعد اس پر کچھ واجب نہیں ہوگا جیسا کہ اگر وہ اس کو حل میں چھوڑدے پھر وہ (شِکرا یا باز وغیرہ) حرم میں داخل ہوکر حرم کے شکار کو قتل کردے تو اس پر کچھ واجب نہیں ہوگا ۹؎ اور اگر وہ اس کو حرم کا شکار مارنے کے لئے چھوڑے گا تو اس پر جزا واجب ہوگی ۱۰؎ (۷) جاننا چاہئے کہ جو شکار حدودِ حرم میں داخل ہوگیا اس کو شکار کرنا مطلق طور پر حرام ہے جیسا کہ احرام کی حالت میں مطلق طور پر ( یعنی خواہ حرم میں ہو یا حل میں ) شکارمارنا حرام ہے ۱۱؎ اگروہ جانور کھڑا ہوا ہے تو حدودِ حرم کا شکار ہونے کے بارے میں اس کے پاؤں کی جگہ کا اعتبار ہوگا اس کے سر کا اعتبار نہیں ہوگا کیونکہ کھڑے ہونے کا مدار پاؤں پر ہے اس لئے کھڑے ہوئے شکار میں اس کے پاؤں کا اعتبار کیا جائے گا پس اگر شکار کے سارے پاؤں حل میں ہیں اور اس کا سر حرم میں تو اس کے قتل کرنے سے کچھ واجب نہ ہوگا کیونکہ وہ حل کے شکار میں سے ہے، حلا ل کے اس کا شکار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور اگر ایسے شکار پر تیر پھینکا جس کے پاؤں حرم میں ہیں اور اس کا سرحل میں ہے تو وہ حرم کا شاکر ہے محرم یا حلال کے لئے اس کو قتل کرنا جائز نہیں ہے اور ( کھڑے ہوئے جانور کے حرم کا شکار ہونے کے لئے ) یہ شرط نہیں ہے کہ اس کے سارے پاؤں حرم میں ہوں بلکہ بعضے پاؤں کا حرم میں ہونا سب پاؤں کے حرم میں ہونے کی مانند ہے