عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہے اور قیاس یہ ہے کہ دوچیزیں یعنی احرام اور حرم پر جنایت پائے جانے کی وجہ سے دوکفارے واجب ہوں گے پس وہ قارن کے مشابہ ہوگیا لیکن فقہا نے استحسان کواختیار کیا اور صرف احرام کی جنایت کا کفارہ واجب کیا ہے اس کے علاوہ کچھ واجب نہیں کیا ۵؎ (۳) اگر کسی حلال شخص نے حدودِ حرم میں شکار کو قتل کیا تو اس پر بھی حرم میں قتل کرنے کی جزا واجب ہے ۶؎ (۴) اگر سکھایا ہوا جانور مثلاً باز یا طوطا یا بندر وغیرہ جو کسی کا مملوک تھا کسی نے حدودِحرم میں مارڈالا تو اس پر اس کے مالک کو سکھائے ہوئے جانور کی قیمت دینا واجب ہوگا اور حرم کی جزا بھی واجب ہوگی جس میں سکھایا ہوا ہونے کا لحاظ نہ ہوگا بلکہ بغیر سکھائے ہوئے جانور کی قیمت واجب ہوگی ۷؎ (۵) اگر حل کا شکار حدودِ حرم میں داخل ہوگیا تووہ بھی حرم کے شکار میں شمار ہوگا خواہ وہ کسی کا مملوک ہویا نہ ہواور خواہ وہ خود بخود داخل ہوا ہو یا کسی حلال یا محرم شخص نے داخل کیا ہو پس اس شخص پر اس جانور کا چھوڑنا واجب ہوگا، اگر کسی نے اس کو ذبح کردیا تو اس شخص پر اس جانور کی جزا واجب ہوگی اور اس کو فروخت کرنا جائز نہیں ہے پس جب بھی کوئی شخص شکار کا زندہ جانور لے کر حدودِ حرم میں داخل ہوگا اس جانور کا چھوڑنا اس پر واجب ہوگا، یہ حکم اس وقت ہے جبکہ وہ جانور حقیقی طور پر اس کے ہاتھ میں ہے لیکن اس کے ہمراہ پالان (گون وغیرہ) یا اس کے پنجرہ میں ہے تو اس کا چھوڑنا واجب نہیں ہے ۸؎