عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
ہے جیسا کہ ابن الہمام نے بدائع کا اتباع کرتے ہوئے تحقیق کی ہے، پس یہی قابلِ اعتماد ہے غور کرلیجئے ۹؎، اور لباب المناسک کے متن میں بھی اسی کو اختیار کیا ہے لیکن حاکم نے جو کچھ ذکر کیا ہے کہ اس سے بحر وغیرہ اور بدائع وفتح القدیر وغیرہ کے قول میں توفیق ہوسکتی ہے وہ اس طرح پر کہ جس نے قتل کی جزا کے ساتھ زخم کے نقصان کو واجب کیا ہے اس نے قتل کی جزا میں مجروح شکار کی قیمت واجب کی ہے۔ صحیح و سالم کی نہیں اور جس نے زخم کے نقصان کو واجب نہیں کیا اس نے قتل کی جزا صحیح وسالم حالت کی قیمت واجب کی ہے اوران دونوں صورتوں کا انجام ایک ہی ہے پس غور کرلیجئے ۱۰؎ (۷) اگر شکار کے جانور کوزخمی کیا یا اس کے پَر یا بال اکھاڑدیئے یا اس کا کوئی عضو کاٹ دیا اوروہ جانور مرا نہیں تو جتنا نقصان ہوا وہ دینا ہوگا یعنی صحیح وسالم کی قیمت اور زخمی ہونے کے بعد کی قیمت کا جو فرق ہوگا وہ دینا ہوگا، یہ حکم اس وقت ہے جبکہ اس جانور کی خیر خواہی کے قصد سے نہ کیا ہو لیکن اگر اس کو شکار کرنا مقصود نہیں تھا بلکہ اس جانور کی خیر خواہی مقصود تھی مثلاً کبوتر وغیرہ کو بلّی سے چھڑاتے ہوئے یا جال سے نکالتے ہوئے زخم ہوگیا یا پر ٹوٹ گیا تو اس پر کچھ واجب نہ ہوگا اگرچہ اس طرح وہ جانور مرجائے اور بقدرِ نقصان قیمت ادا کرنے کا حکم اس وقت ہے جبکہ زخمی کرنے یا بال اکھاڑنے یا کوئی عضو کا ٹنے سے وہ جانور اس قدر عاجز نہ ہوجائے کہ اپنے آپ کو دشمن سے بچاسکے ورنہ اس کی پوری قیمت واجب ہوگی ( اگرچہ مرا نہ ہو ) پس اگر ایسا زخمی کیا کہ اب اس پر شکار کی تعریف یعنی اپنے آپ کو دشمن سے بچانا اور لوگوں سے بھاگنا صادق نہ آتی ہوتو اس کی پوری قیمت واجب ہوگی اور اگر اس قدر زخمی کیا کہ ابھی اس پر شکار کی تعریف صادق آتی ہے تو صرف بقدرِ نقصان قیمت واجب ہوگی، پس اگر محرم نے کسی پرندے کے پَر