عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
انسا ن خود ان سے بچتا ہے اس کے باوجود یہ جانور انسا ن کا پیچھا کرتے ہیں اور اس لئے بھی شکار نہیں ہیں کہ یہ جانور اکثر ایذا پہنچانے میں ابتدا کرتے ہیں پس سانپ وبچھو وغیرہ کے حکم میں ہیں جن کا موذی ہونا نص سے ثابت ہے ۲؎ (۵) محرم وحلال کے لئے تمام قسم کے دریائی جانوروں کا شکار کرنا جائز ہے ( اگرچہ وہ شکار حدودِ حرم میں ہو ) خواہ اس جانور کا گوشت کھانا حلال ہو جیسے مچھلی یا اس کا گوشت کھانا حلال نہ ہو کیونکہ اﷲ تعالیٰ کاارشا د ہے ’’ اُحِلَّ لَکُمْ صَیْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُہ‘ مَتَاعاً لَّکُمْ وَلِلسَّیَّارَۃِ o الآیہ۔‘‘اور رسول اﷲ ﷺ کا ارشاد ہے ’’ھُوَ الطَّھُوْرُ مَائُ ہٗ وَالْحِلُّ مَیْتَتُہ‘o ‘‘ یعنی دریا وسمندر کا پانی پاک ہے اور اس کا مُردار حلال ہے ، پس جو جانور دریا میں پیدا ہو اگرچہ خشکی میں رہتا ہو اُن سب کا شکار کرنا جائز ہے اور وہ یہ ہیں :مچھلی، دریائی مینڈک، کیکڑا، دریائی کچھوا، دریائی کُتا وغیرہ ۳؎۔ (لیکن ہمارے امام صاحبؒ کے نزدیک مچھلی کے علاوہ دوسرے تمام دریائی جانوروں کا کھانا حرام ہے ) اُود بلاؤ جس سے جُندبید ستر نکالتے ہیں وہ دریاؤں اور تالابوں کے نزدیک جنگل میں زمین کے اندر قبر سی کھود کر اس میں بچے جنتا ہے اور اگثر رات کو دریاؤں اور تالابوں میں سے مچھلی پکڑ کر کھاتا ہے ، رات دن پانی میں نہیں رہتا نہ ہی پانی میں پیدا ہوتا ہے سندھی میں اس کو لدھڑہ کہتے ہیں احرام کی حالت میں اس کا شکار کرنا خشکی کے شکار کی طرح منع ہوگا ۴؎۔احرام وحرم میں دریائی پرندہ کا شکار کرنا جائز نہیں ہے اسلئے کہ تمام پرندے خشکی کے جانور ہیں کیونکہ یہ خشکی ہی میں پیدا ہوتے ہیں اور ان میں سے بعض پرندے دریا وسمندر اور تالاب وغیرہ میں رزق کی تلاش کے لئے داخل ہوتے ہیں، اور محیط میں ہے کہ سمندری پرندے کا قتل کرنا ( احرام وحرم میں ) جائز نہیں ہے کیونکہ یہ پانی میں انڈے دیتا اور بچے نکالتا ہے اور خشکی وسمندر