عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بے معنی ہے ۵؎ ، لیکن فتح القدیر اور بدائع میں ہے کہ کتا مطلق طور پر شکار نہیں ہے خواہ گھریلو یا وحشی ہو ( اور خواہ کٹ کھنا ہو یا نہ ہو ) کیونکہ یہ اصل کے اعتبار سے گھریلو ہے لیکن بعض وقت کسی عارض کی وجہ سے وحشی ہوجاتا ہے ، پس وہ وحشی اونٹ کے مشابہ ہوگا، اس کا مقتضیٰ یہ ہے کہ کسی بھی قسم کے کتّے کو ماردینے پر جزا واجب نہیں ہوگی ۶؎ ،امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ سے روایت ہے کہ کتا خواہ کٹ کھنا ہو یا غیر کٹ کھنا اور مانوس ( گھریلو) ہو یا وحشی سب کا حکم یکساں ہے کیونکہ اس بارے میں جنس کا اعتبار ہے ۷؎ ،جاننا چاہئے کہ یہ بحث کتّے کے مارنے پر جزا واجب ہونے کے بارے میں تھی لیکن اس کا قتل حلال ہونے کے بارے میں یہ ہے کہ جو آبادی کا کتا ایذا دینے والا نہ ہو اس کو قتل کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ کتے کو قتل کرنے کا حکم منسوخ ہے پس اس کے مارنے میں ایذا پہنچانے والا ہونے کی قید ہے فتح القدیر میں اسی طرح کہا ہے ۸؎ نہر الفائق میں ملتقط سے مذکور ہے کہ جب کسی بستی میں کتوں کی کثرت ہوجائے اور ان سے وہاں کے رہنے والوں کو ضرر پہنچے توان کتو ں کے مالکوں کو ان کے مارنے کا حکم کیا جائے گا اور اگر وہ انکار کریں تو یہ معاملہ قاضی ( حاکمِ شہر) کے سامنے پیش کیا جائے یہاں تک کہ ان کے مارنے کا حکم دے اھ پس فتح القدیر میں جو حکم مذکور ہے وہ اس وقت ہے جبکہ کتوں سے کوئی ضرر نہ ہو ۹؎ ، اور اسی طرح گھریلو بلّی بھی شکار نہیں ہے کیونکہ وہ مانوس جانور ہے لیکن جنگلی بلّی کے بارے میں امام ابو حنیفہؒ سے دو روایتیں ہیں ۱۰؎ ، امام ابو حنیفہؒسے ہشام کی روایت میں ہے کہ جنگلی بلّی قتل کرنے پر جزا واجب ہوگی کیونکہ یہ وحشی جانور ہے پس لومڑی وغیرہ کی مانند ہے اور امام حسنؒ کے روایت میں ہے کہ اس پر گھریلو بلّی کی مانند کچھ جزا واجب نہیں ہوگی کیونکہ بلّی کی جنس پیدائش کے اعتبار سے مانوس ہے اور اس میں سے