عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ضروری ہے، مئولف) اور امام نووی رحمہ اﷲ نے کہا ہے کہ بعض وقت کوئی شخص (متمول و متکبر آدمی) ان محرمات (ممنوعات) میں سے کسی ایک کا ارتکاب (عمداً) کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں اس کا فدیہ دیدوں گا اور وہ یہ خیال کرتا ہے کہ فدیہ دینے سے وہ ا س گناہ کے وبال سے بچ جائے گا تو یہ اس کی صریحاً غلطی اور بہت بڑی جہالت ہے کیونکہ ممنوعات احرام کا ارتکاب حرام ہے پس جب اس نے اس حکم کی مخالفت کی تو وہ گنہگار ہوا اور اس پر فدیہ لازم ہوا اور فدیہ دینا حر ا م فعل کے ارتکاب کو مباح و حلال نہیں کرتا ، اور اس فعل کی جہالت ایسی ہی ہے جیسا کہ یہ کہنا جہالت ہے کہ (نعوذ باﷲ) میں شراب پیتا ہوں اور زنا کرتا ہوں اور اس کی وجہ سے مجھ پر جو حد قائم ہوگی وہ مجھ کو پاک کردے گی اور جس شخص نے اپنے حج میں کسی حرام فعل کا ارتکاب کیا تو اس کا حج مبرور نہیں ہوگا ۱ھ (یعنی اس کو حج کا ثواب نہیں ملے گا اگر چہ حج کی فرضیت اس سے ساقط ہو جائے گی ،مؤلف) اور ہمارے اصحاب نے اسی کی مثل حدود کے بیان میں صراحت کر دی ہے اور کہا ہے کہ حد گناہ سے پاک نہیں کرتی اور اس کے اوپر سے گناہ کو ساقط کرنے میں عمل نہیں کرتی بلکہ تو بہ کرنا ضروری ہے پس اگر اس نے گناہ سے توبہ کرلی تو حد اس کو پاک کر دے گی اور اس سے آخرت کا عذاب بالا جماع ساقط ہو جائے گا۔ ورنہ نہیں لیکن صاحب ملتقط نے باب الایمان میں کہا ہے کہ کفارہ گناہ کو رفع کر دیتا ہے اگر چہ اس شخص نے اس گناہ سے توبہ نہ کی ہو ۱ھ اور اس کی تائید شیخ نجم الدین نسفی کے قول سے بھی ہوتی ہے جو انھوں نے اپنی تفسیر التیسیر میں اﷲ تعالیٰ کے فرمان فَمَنِ اعْتَدیٰ بَعْدَ ذٰلِکَ فَلَہٗ عَذَابٌ اَ لِیْم ط (پس جس نے حد سے تجاوز کیا (یعنی اس نے اس ابتلا کے بعد بھی شکار کیا) تو اس کے لئے دردناک عذاب ہے) کے تحت ذکر کیاہے کہ کہا گیا ہے دنیا میں کفارہ