عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مکہ معظمہ آتے تھے تو مقام ذی طوٰی میں رات گزارتے تھے اور صبح ہونے پر غسل کرتے اور دن کے وقت مکہ معظمہ میں داخل ہوتے تھے اور فرماتے تھے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ایسا ہی عمل فرمایا ہے اسکو امام بخاری وامام مسلم رضی اﷲ عنہما نے روایت کیا ہے۔ چاروں اماموں کے نزدیک مستحب یہ ہے کہ خواہ حج کے لئے آئے یا عمرہ کے لئے مکہ معظمہ میں ثنیہء علیا (بلند راستہ ) کی طرف سے داخل ہو جس کو کدآء ( کاف کی زیر اور دال کے بعد الف ممددہ ) کہتے ہیں اور وہ مکہ معظمہ کی بلند زمین کی طرف اونچی سڑک ہے اور وہ حجون یعنی قبر ستان ہے جس کو بابُ الْمَعْلیٰ کہتے ہیں یعنی مکہ معظمہ میں باب المَعْلیٰ سے داخل ہوتا کہ داخل ہوتے وقت تعظیماً اس کا منہ خانہ کعبہ کے دروازے کی طرف ہو اور اس لئے بھی کہ رسول اﷲ ﷺ فتح مکہ کے سال بلندی کے ساتھ تفاول کے طور پر اسی راستہ سے داخل ہوئے تھے اور اس لئے بھی کہ سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی اس بارے میں دعا کی ہے کہ لوگوں کے دلوں کو اُن ( یعنی حضرت اسماعیل علیہ السلام اور ان کی اولاد) کی طرف مائل کردیجئے اور اس لئے بھی کہ خانہ کعبہ کا دروازہ چہرے کی مانند ہے اور لوگ چہرے کی طرف سے آتے ہیں پیٹھ کی طرف سے نہیں اور جب مکہ معظمہ سے باہر جائے تو باب السفلیٰ سے نکلنا مستحب ہے جس کو کُدا (بعضم کاف ،دال کے بعد الف مقصورہ ) کہتے ہیں پس اگر مکہ معظمہ میں داخل ہوتے وقت ایسے راستہ سے آئے جس میں باب المعلی نہ آئے مثلاً کوئی شخض یمن یا عراق کی طرف سے آیا تو اس طرف کو کچھ مائل ہوجانا چاہئے خواہ وہ سفر حج کے لئے ہو یا عمرہ کے لئے اور یہ سب امور اس وقت ہیں جبکہ تنگی وزحمت نہ ہو اور تنگی وزحمت ہوتو کسی بھی راستہ سے داخل ہوجائے خصوصاًآج کل یہ مشکل ہے کہ کیونکہ موٹروں کے تابع ہونا پڑتا ہے، اسباب وغیرہ ساتھ ہوتاہے اور موٹریں