عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اور اس کے لئے یہ نیت نہیں کی کہ کس قسم کا حج کرتا ہے تو امام ابو یوسفؒ سے جو روایت ہے کہ وہ نفلی حج ہوگا اور ہشام نے کہا کہ وہ فرض حج کی بجائے ہوگا اھ فتح القدیر میں (اس کی وضاحت ) ہے کہ امام ابو یوسفؒ سے جو روایت ہے یہ اس وقت ہے جبکہ اس کے ذمہ حج فرض نہ ہو اور ہشام کی روایت اس وقت ہے جبکہ اس پر حج فرض ہو پس دونوں روایتیں اس بات پر متفق ہیں کہ وہ حج نیت کے بغیر حج منذور کی طرف منتقل نہیں ہوگا ۱؎ (۵) حج منذور امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک فرض حج ادا کرنے سے ساقط ہوجاتا ہے بخلاف امام محمدؒ کے پس اگر کسی شخص نے حج کی نذر کی اور اس نے ابھی تک حج فرض ادا نہیں کیا اس کے بعد اس نے حج کیا اور اس میں مطلق حج کی نیت کی تو وہ فرض حج کی بجائے ادا ہوجائے گا اور اس سے نذر کا حج بھی اس کے ذمہ سے ساقط ہوجائے گا کیونکہ وہ نذر اس فرض حج کے طرف منتقل ہوجائے گی اور اگر وہ فرض حج ادا کرچکا تھا اس کی بعد حج کی نذر مانی پھر حج کیا تو اس کو نیت میں حج منذور کا متعین کرنا ضروری ہے ورنہ وہ نفلی حج واقع ہوگا جیسا کہ فتح القدیر میں مذکور ہے ۲؎ (۶) اگر کسی نے یہ نذر کی کہ وہ فلاں سال میں حج کرے گا پھر اس نے اس سال سے پہلے ہی حج کرلیا تو امام ابو یوسفؒ کے نزدیک جائز ہے اور یہ قیاس کے زیادہ نزدیک ہے بخلاف امام محمدؒ کے اور اگر اس نے حج نہیں کیا اور وہ اس سال سے پہلے مرگیا تو اس پر کچھ لازم نہیں ہے اور اگر فرض حج کا قصد نہیں کیا تو اس کو حج منذور کی نیت کرنا ضروری ہے جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے ۳؎