عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کی ہو یا حج وعمرہ دونوں کی نذر کی ہو اور منذور حج یا عمرہ کے عوض کفارہ دینا کافی نہیں ہوسکتا ، اور اگر وہ شرط ایسی ہے جس کے پورا ہونے کی خواہش نہیں کرتا ہے مثلاً وہ یوں کہے کہ اگر میں زید سے کلام کروں یا یوں کہے کہ گھر میں داخل ہوں تو مجھ پر اﷲ تعالیٰ کے لئے فلاں چیز واجب ہے اور اس نے اس شرط کو توڑ دیا ( یعنی اس سے کلام کرلیا گھر میں داخل ہوگیا) تو اس کے لئے کفارہ دینا کافی ہے اور یہی صحیح ہے اور امام ابو حنیفہؒ نے اپنی وفات سے سات دن پہلے اس کی طرف رجوع کرلیا ہے اور یہ امام محمدؒ کا قول ہے اور یہی مذہب ہے بخلاف ظاہر الروایت کے جو یہ ہے کہ نذر معلق پورا کرنا مطلق طور پر واجب ہے یعنی خواہ اس کے پورا ہونے کی خواہش کی جائے یا نہ کی جائے ۳؎ (۲) اگر مثلاً یہ کہا جائے کہ اگر گھر میں داخل ہوں تو میں حج کروں گا تو شرط کے پائے جانے ( یعنی گھر میں داخل ہوجانے ) کی صورت میں اس پر حج واجب ہوجائے گا ۴؎ ۔ (۳) اور اگر اس شرط کے بغیر یہ کہا کہ میں حج کروں گا تو اس پر حج واجب نہیں ہے ۵؎ (۴) یہ کہا کہ اگر اﷲ تعالیٰ نے مجھ کو میری اس بیماری سے شفا دی تو مجھ پر حج واجب ہے پھر وہ شفایا ب ہوگیا تو اس پر حج واجب ہوگیا پس جب اس نے حج کیا اور اس کے لئے یہ نیت نہیں کی کہ کس قسم کا حج ہے تو وہ حج فرض حج کی بجائے ادا ہوجائے گا لیکن اگر فرض حج کے علاوہ کسی اور حج کی نیت کی تو فرض حج ادا نہیں ہوگا اھ اور اگر اس کا قصد فرض حج ادا کرنے کا نہ ہوتو اس کو (نذر کا حج ادا ہونے کے لئے ) نذر کے حج کی نیت کرنا ضروری ہے، اور یہ جو المنتقیٰ میں ہے کہ کسی نے حج کرنے کی نذر کی پھر حج کیا