عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
(۱۱) اور عمدۃ الفتاویٰ میں ہے کہ کسی عورت نے اپنے خاوند پر مہر چھوڑدیا تاکہ وہ اس مہر کے ساتھ اس کی طرف سے حج کرے اور اس خاوند نے مہر کی رقم سے اس کا حج کیا تو خاوند پر مہر واجب ہوگا کیونکہ یہ بمنزلہ رشوت کے ہے جو کہ حرام ہے اھ ۱۰؎ (۱۲) اور اگر وصی نے میت کا ترکہ تقسیم کردیا،اس میں سے حج کے نفقہ کی مقدار الگ کرلیا باقی ترکہ اس کے وارثوں کو دیدیا پھر جو رقم حج کے لئے الگ کی تھی وہ حج کرنے سے پہلے وصی یا حج کرنے والے کے پاس سے ضائع ہوگئی تو امام ابو حنیفہؒ کے قول میں تقسیمِ ترکہ باطل ہوجائے گی، یہ رقم تمام ترکہ میں ضائع سمجھی جائے گی اور وہ وصیت باطل نہیں ہوگی بلکہ باقی مال کی تہائی سے اس میت کا حج کیا جائے گا یہاںتک کہ میت کا حج ادا ہوجائے یا وہ مال ختم ہوجائے ( یعنی اگر بار بارحج کے لئے الگ کی ہوئی رقم چوری وغیرہ سے ضائع ہوتی رہے تو جب تک ترکہ کی رقم اس قدر باقی رہے جس سے حج ہوسکے اس وقت تک ہر دفعہ اس میں سے خرچہ دے کر میت کا حج کرایا جائے گا یہاں تک کہ اس کاحج ادا ہوجائے یا پھر وہ رقم ختم ہوجائے اور بقدرِ حج باقی نہ رہے،مؤلف) یہ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک ہے اورامام ابو یوسفؒ کے نزدیک اس کے تہائی ترکہ میں سے جو رقم باقی ہے اس سے جہاں سے حج ہوسکتا ہے اس کا حج کرایا جائے اور اگر تہائی ترکہ میں کچھ باقی نہ رہے تو وصیت باطل ہوجائے گی اور امام محمدؒ نے کہا ہے کہ وصی کی تقسیم جائز ہے اور حج کے لئے الگ کی ہوئی رقم کے ضائع ہوجانے سے وہ وصیت باطل ہوجائے گی خواہ الگ کی ہوئی رقم میں سے کچھ بچے یا نہ بچے ۱؎ (اس مسئلہ کی تفصیل حج بدل کی شرط ہشتم میں بیان ہوچکی ہے وہاں ملاحظہ فرمائیں ،مولف)