عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
(۱۳)اگر کسی نے حج کے لئے وصیت کی اور اس وصیت میں حج کے علاوہ دوسری چیزوں کو بھی ملایا اور تہائی مال ان سب چیزوں کے لئے کافی نہیں ہے تو اگروہ چیزیں آپس میں برابر درجہ کی ہیں مثلاً حج اور زکوٰۃ تو جس چیز کو وصیت کرنے والے نے پہلے ذکر کیا ہے اس کو پہلے ادا کیا جائے اور امام ابو یوسفؒ کے نزدیک زکوٰۃکو مقدم کیا جائے گا کیونکہ اس میں دو حق ہیں ( یعنی حق اﷲ و حق العباد ،مؤلف) اور حج و زکوٰۃ کو کفارات پر مقدم کیا جائے گا اور کفارات کو صدقہ فطر پر ، صدقہ فطر کو نذر پر اور نذر وکفارات کو اُضحیہ ( قربانی ) پر، واجب کو نفل پر مقدم کیا جائے گا اور نوافل میں جس کو میت نے پہلے بیان کیا ہے اسکو مقدم کیا جائے گا اور غلام آزاد کرنے کی وصیت کا حکم جبکہ اس کو کفارہ سے معین نہیں کیا نفل کے حکم میں ہے اور کسی معین آدمی کے لئے وصیت کرنافرائض کی مانند ہے پس اگر مساکین (غیر معین) کے لئے کہا تو یہ نفل کی مانند ہے اور منقولہ صورتوں میں سے ایک صورت یہ ہے کہ کسی نے فرض حج اور غلام آزاد کرنے کے لئے وصیت کی اور تہائی مال دونوں کی گنجائش نہیں رکھتا تو حج مقدم کیا جائے گا اور اگر حج اور ( غیر معین ) لوگوں کے لئے وصیت کی اور تہائی میں دونوں کے لئے گنجائش نہیں ہے تو تہائی مال کو ان دونوں کے درمیان حصص کے اعتبار سے تقسیم کیا جائے گا اور حج کے لئے اس قدر نفقہ نکالاجائے گا جو کم سے کم ہو اور حج کے لئے کافی ہو پھر جو رقم حج کے لئے مخصوص ہو اس رقم سے جہاں سے حج ادا ہوسکتا ہو وہاں سے حج کرایا جائے اس لئے کہ یہی ممکن ہے ۲ ؎ اور اگر کسی شخص کے لئے ایک ہزار درہم کی وصیت کی اور مساکین کے لئے ایک ہزار درہم کی اور اپنی طرف سے فرض حج کرانے کے لئے ایک ہزار درہم کی وصیت کی اور میت کا تہائی مال دو ہزار درہم ہے تو وہ تہائی مال تین حصوں میں تقسیم کیا جائے گا پھر