عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
(۹) اور یہ سب احکام اس وقت ہیں جبکہ اس نے یہ وصیت کی ہو کہ اس کی طرف سے حج کیا جائے لیکن اگر اس نے یہ کہا کہ فلاں شخص کو حج کراؤ اور یہ نہیں کہا کہ میری طرف سے کراؤ اور یہ بھی بیان نہیں کیا کہ کس قدر رقم دی تو اس کو اس قدر رقم دی جائے گی جس میں حج ہوسکے اور یہ رقم اس کی ملکیت ہوگی، اس کی مرضی ہے اس رقم سے حج کرے یا نہ کرے اور یہ وصیت ہے جسا کہ مبسوط وغیرہ میں ہے ۷؎ یعنی وہ رقم لینے کے بعد اس کو اختیار ہے کہ اس سے حج نہ کرے اور اس رقم کو کسی دوسری ضرورت میں خرچ کرلے اور اس کو بقدر نفقہ حج اس لئے دیا جائے گا جب وصیت کرنے والے نے بقدر نفقہ حج رقم دینے کا امر کیا تو اس نے حج کو اس مال کا معیا ر بنایا ہے جس کی اس نے اسے وصیت کی ہے پھر اسے یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ وہ اس رقم سے اپنی طرف سے حج کرلے پس اس کی وصیت صحیح ہوئی اور اس کامشورہ اس پر لازم نہیں ہوگا اس کی مرضی ہے چاہے حج کرے اور چاہے نہ کرے اور حاصل یہ ہے کہ بے شک اس نے اس کو اس قدر مال دینے کی وصیت کی ہے جو حج کرنے کے لئے کافی ہو ۸؎ (۱۰) اور جب اس نے وصیت کی کہ اس کا کوئی وارث اس کی طرف سے حج کرے ، اگر اس کے تمام وارثوں نے اجازت دیدی اور وہ سب بڑے (بالغ) ہیں تو اس وارث کا حج کرنا جائز ہے اور اگر وہ چھوٹے ہیں یابڑے ہیں لیکن حاضر نہیں ہیں تو اس وارث کو حج کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ وارث کے لئے نفقہ دینے کی وصیت کے مشابہ ہے جو کہ دوسرے وارثوں کی اجازت کی بغیر جائز نہیں ہوتا ۹؎