عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
افضل ہے تاکہ وصیت پر جلدی عمل ہوجائے کیونکہ اکثر مال ضائع ہوجاتا ہے اور تیسری صورت کا حکم بھی دوسری صورت کی طرح ہے اور اس تیسری صورت کو کتاب الاصل میں اس لئے ذکر نہیں کیا کہ ہر سال الگ الگ حج کرنے کی شرط غیر مفید ہے پس یہ صورت بھی مطلق وصیت کی طرح ہوئی ۳؎ اور اسی طرح اگر میت نے حج کرانے کے لئے مال کی مقدار معین کردی مثلاً یہ کہا کہ میری طرف سے ایک ہزار روپے میں حج کرایا جائے اوریہ رقم تہائی مال میں سے نکا لی جاسکتی ہے اور ایک ہزار روپیہ سے متعدد حج ہوسکتے ہیں تو اس میں بھی وہی تفصیل ہے جو اوپر تہائی مال سے حج کرانے کی وصیت میں بیان ہوئی اور امام قدوری وقاضی اسبیجابی کا وہی اختلاف یہاں بھی لاحق ہوتا ہے اور قدوری کی اس سے بھی تائید ہوتی ہے کہ مبسوط میں یہ مسئلہ بلا خلاف ذکر کیا ہے لیکن اس نے یہ قید لگائی ہے کہ یہ حکم اس وقت ہے جبکہ اس نے حَجَّۃً نہ کہا ہو ۴؎ پھر(جیسا کہ اوپر بیان ہوا متعدد حج کرانے کی صورت میں ) وصی کواختیار ہے کہ چاہے ایک سال میں اس کی طرف سے متعدد حج کرادے یعنی متعدد آدمیوں کو ایک سال میں بھیج کراس کی طرف سے حج کرادے اور یہ عبادت کی طرف سے سبقت کرنے کی وجہ سے افضل ہے اور اس لئے بھی افضل ہے کہ اس میں وصیت کو جاری کرنے میں جلدی پائی جاتی ہے اور اس کا م میں جلدی کرنا تاخیر سے افضل ہے اور اگر وہ چاہے تو ہر سال ایک آدمی کو بھیج کر اس کی طرف سے حج کرائے ۵؎ یعنی پہلے حج پہلے سال میں کرادینے کے بعد ایسا ہوا س لئے کہ فرض حج اس کے ذمہ سے اتارنے کے لئے یہی افضل ہے کہ پہلے سال اس کو ادا کیا جائے پھر جو باقی حج ادا ہوں گے وہ نفلی اور مزید فضیلت کے لئے ہوں گے ۶؎ پس اگر وصی نے تہائی مال سے یا تہائی میں سے میت کی مقررہ رقم سے ایک یا متعدد حج کرائے اور اب اس قدر رقم باقی رہ