عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
گئی ہے کہ اس سے اس کے وطن سے حج کرنے کے لئے کافی نہیں ہے البتہ مکہ معظمہ سے زیادہ قریبی میقات سے یا مکہ معظمہ یا اسی قسم کی کسی اور جگہ سے اس بقیہ رقم سے حج ہوسکتا ہے تو اس جگہ سے اس کا حج ادا کیا جائے اور وہ باقی رقم وارثوں کو نہ دی جائے ۷؎ لیکن اگر وہ بقیہ رقم اتنی تھوڑی رہ گئی ہو کہ اس سے کسی بھی جگہ سے حج نہیں ہوسکتا تو وہ رقم وارثوں کو واپس دیدی جائے وہ رقم مامور کے لئے حلال وجائز نہیں ہے ۸؎ پس حاصل یہ ہے کہ مامور آمر کے مال سے دیئے ہوئے نفقہ کا مالک نہیں ہوتابلکہ وہ مال حج کرانے والے کی ملکیت میں ہوتا ہے اور مامور اس میں اس کی طرف سے تصرف کرتا ہے خواہ آمر زندہ ہو یا مرچکا ہو اور خواہ نفقہ کی مقدار معین ہو یا غیر معین اور اس کے لئے بچی ہوئی رقم حلال وجائز نہیں ہے خواہ وہ رقم تھوڑی ہو یا زیادہ لیکن اگر آمر یا اس کا وارث یا وصی اس کو اجازت دیدے تو جائز ہے جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے، اور واقف کی طرف سے مشروط حج کا حکم بھی اسی طرح ہونا چاہئے مثلاً اگر کسی واقف نے اپنے وقف میں سے ایک مقررہ رقم سے ہرسال اپنی طرف سے حج کرنے کی شرط کی تو اس کی شرط پر عمل کیا جائے گا اور مامور کے لئے اس میں سے بچی ہوئی رقم خود رکھ لینا جائز و حلال نہیں ہے بلکہ اس کو وقف کی طرف واپس لوٹانا واجب ہے ۹؎ (۶) کوئی شخص مرگیا ، اس نے دوبیٹے چھوڑے اور نوسودرہم چھوڑے اور مرتے وقت وصیت کی کہ اس کی طرف سے تین سو درہم میں حج کرایا جائے ان دونوں بیٹوں میں سے ایک نے انکار کردیا اور دوسرے نے اقرار کیا اور ان دونوں نے متروکہ مال میں سے آدھا آدھا مال ( ۴۵۰درہم) لے لیا پھراس اقرار کرنے والے بیٹے نے ڈیڑھ سو درہم کسی شخص کو دیئے کہ وہ اس میت کی طرف سے حج کرے پھر دوسرے بیٹے نے بھی اقرار کرلیا اگر