عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
دے کر حج کرانا واجب ہوگا کیونکہ وہ رقم یقینی طور پر وصیت میں داخل ہے اھ ۴؎ اور حج میں خرچ کرنے کے بعد جو رقم بچ جائے وہ وارثوں کا حق ہے ۵؎ (ان کی بلا اجازت حج کرانے والے کو رکھنا جائز نہیں ۶؎ ) (۵) اور اگر یہ کہا کہ میرے تہائی مال سے میری طرف سے حج کرایا جائے اور اس کے تہائی مال سے کئی حج ہوسکتے ہیں تو اگر اس نے اپنی وصیت میں ایک حج کرانے کی وضاحت کردی ہے یعنی یہ کہا ہے کہ میرے تہائی مال سے میری طرف سے ایک حج کرایا جائے یا حَجَّۃً کہا اور وَاحِدَۃً کا لفظ نہیں کہا تو اس کی طرف سے ایک حج کرایا جائے ا ور جو رقم بچے وہ وارثوں کو واپس دے دی جائے ۷؎ اور اگر یہ وضاحت نہیں کی کہ ایک حج کرایا جائے بلکہ یہ کہا کہ اس کی طرف سے تہائی مال سے حج کرایا جائے اور ایک کی قید نہیں لگائی ( یعنی حَجَّۃً وَاحِدَۃً یا صرف حَجّۃًَ ً نہیں کہا ) تو اس تہائی مال سے جس قدرحج ہوسکیں ادا کئے جائیں ۸؎ امام قدوری رحمہ اﷲنے اپنی شرح مختصرالکرخی میں اسی طرح روایت کیا ہے اور قاضی اسبیجابیؒ نے اپنی شرح مختصرالطحاوی میں ذکر کیا ہے کہ ’’اگر کسی نے یہ وصیت کی کہ اس کے تہائی مال سے اس کی طرف سے حج کرایا جائے اور اس کے تہائی مال سے کئی حج ہوسکتے ہیں تو اس کی طرف سے اس کے وطن سے ایک حج کرایا جائے اور وہ اس کا فرض حج ہوگا لیکن اگر اس نے یہ وصیت کی ہو کہ تمام تہائی مال سے اس کی طر ف سے حج کرایا جائے تو تہائی مال سے جتنے حج ہوسکتے ہیں اتنے کرائے جائیں۔‘‘ بدائع میں کہا ہے کہ قدوری نے جوذکرکیا ہے وہ زیادہ مدلل ہے کیونکہ بالثلث اور بجمیع الثلث کے لفظ سے وصیت کرنے کا ایک ہی مطلب ہے اس لئے کہ لفظ ثلث اس تمام تہائی حصہ کا نام ہے اھ ۹؎ اور یہ بات تحقیق طلب ہے جیسا کہ پوشیدہ نہیں ہے اس لئے کہ بالثلث میں با کے