عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اور واپس آنے کے دوران میت کی ملکیت کے طور پر اس رقم سے بقدرضرورت خرچ کرنا ہے اس لئے کہ اگر اس رقم کا مالک تسلیم کیا جائے تو اس کی یہ ملکیت اجرت طلب کرنے کی بنا پر ہوگی حالانکہ عبادات پر اجرت لینا ہمارے فقہا کے نزدیک جائز نہیں ہے پس وہ بچی ہوئی رقم وارثوں کی ملکیت ہوگی اور اس پر واجب ہے کہ وہ باقی رقم وارثوں کو واپس کردے، اور اسی طرح جب اس نے ایک مقررہ رقم سے حج کرنے کی وصیت کی تو اگروہ رقم اس قدر ہو جس سے اس کے شہر سے حج ہوسکتا ہے تو اس کے شہر سے اس کا حج کیا جائے ورنہ جہاں سے اس رقم میں حج ادا ہوسکتا ہے استحساناً وہاں سے اسکا حج کرایا جائے ۱؎ (تمام شرائطِ جوازِ نیابت کی تفصیل پہلے گزرچکی ہے،مؤلف) (۴) اور اگر کسی شخص کو وصیت کی کہ وہ اس کے مال سے اس کی طرف سے حج کرائے تو اس کے تہائی مال سے اس کی طرف سے حج کرایا جائے خواہ وصیت کرنے والے نے تہائی مال کی قید لگائی ہو یا نہ لگائی ہو ( البتہ اگروارث تہائی سے زیادہ دے تو اس کو اختیار ہے ۲؎ ) یعنی اگر مطلق طور پر حج کرنے کو کہا ہو اور مال کی کوئی مقدار یا حج کی کوئی تعداد معین نہ کی ہوتو اس کی طرف سے اس کے تہائی مال سے بقدر کفایت خرچ کے ساتھ ایک حج کیا جائے ۳؎ اور اسی لئے ولوالجی نے اپنے فتاویٰ میں کہا ہے اور اسی طرح فتح القدیر میں بھی فتاویٰ اہل سمر قند سے منقول ہے کہ کوئی شخص مرگیا اوراس نے وصیت کی کہ اس کی طرف سے حج کیا جائے اوراس نے مال کی کوئی مقدار معین نہیں کی پس اگر وصی اس کی طرف سے محمل میں سوار ہوکر حج کرانے کے لئے رقم دے تو ایک ہزار دو سوروپے کی ضرورت ہوگی اور اگر محمل کے بغیر سوار ہوکر حج کرائے تو ایک ہزار روپے درکار ہوں گے اور ہر دو رقم تہائی مال میں سے دینے کی گنجائش ہے تو دونوں میں سے جو اقل رقم ہے وہ