عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
(۳) اور اگر اپنا حج کرانے کی وصیت کرکے مرا تو اس سے احکامِ دنیا میں بھی حج ساقط نہیں ہوتا اور وصی پر اس کی طرف سے حج کرانا واجب ہے اس لئے کہ اس کی حج کرانے کی وصیت صحیح ہے اور جب کسی نے اس کی طرف سے حج کیا اگر نیابت کے جائز ہونے کی تمام شرائط پائی گئیں تو وہ حج اس میت کی طرف سے جائز ہوگا اور وہ شرائط یہ ہیں :۔ آمر ؔکی طرف سے حج کی نیت کرنا، کلؔ خرچہ یا اس کا اکثر حصہ وصیت کرنے والے کے مال سے ہونا لیکن نفلی حج کے لئے یہ شرط نہیں ، حج ؔ کا سفر سواری پر کرنا پیدل حج نہ کرنا، میتؔ کے تہائی مال میں سے حج کرانا خواہ اس نے تہائی مال سے حج کرانے کی وصیت کی ہو یا مطلق وصیت کی ہو صرف یہ کہا ہو کہ اس کی طرف سے حج کیا جائے کیونکہ وصیت میت کے تہائی ترکہ میں جاری ہوتی ہے اور اگر اُ س میت نے یہ معین نہ کیا ہو کہ فلاں جگہ سے اس کا حج کیا جائے تو اس کے اس شہر سے اس کا حج کیا جائے جہاں وہ رہتا ہو جبکہ تہائی مال میں اس قدر گنجائش ہو کہ اس کے شہر سے حج ہوسکے اگر اتنی گنجائش نہ ہو تو استحساناً جہاں سے تہائی مال میں حج ہوسکتا ہو وہاں سے اس کا حج کیا جائے اور اگر میت نے اپنے شہر کے علاوہ کسی اور جگہ سے حج کرنے کی وصیت کی ہو تو اس کے تہائی مال سے اس معینہ مقام سے اس کا حج کرایا جائے خواہ وہ مکہ معظمہ سے قریب ہو یا دور، کیونکہ کسی دوسرے شخص کی طرف سے اس کے امر کے مطابق حج کرانا جائز ہے اس کے مخالف جائز نہیں اور حج کے لئے ا س کے جانے اور واپس آنے کے خرچہ کے بعد میت کی جو رقم حج کرنے والے کے پاس بچ جائے وہ اس کے وارثوں کو واپس کردی جائے، حج کرنے والے کے لئے بچے ہوئے نفقہ میں سے لے لینا جائز نہیں ہے اس لئے کہ حج کرانے کے لئے رقم دینے سے وہ رقم حج کرنے والے کی ملکیت نہیں ہوجاتی اور وہ حج کے لئے جانے