عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اسی سال حج پر روانہ ہوگیا اور راستہ میں مرگیا تو اس پر حج کرانے کی وصیت کرنا واجب نہیں ہے کیونکہ اس نے واجب ہونے کے بعد حج کی ادائیگی میں کوئی تاخیر نہیں کی ۱؎ (۲) جس شخص پر حج فرض ہواگر وہ حج کی ادائیگی سے قبل مرجائے تو وہ یا تو وصیت کے بغیر مرا ہوگا یا اس نے مرتے وقت وصیت کی ہوگی، پس اگر وہ وصیت کئے بغیر مرا تو بلا خلاف وہ شخص گنہگار ہوگا۔ جن ائمہ کے نزدیک حج فرض ہونے والے سال میں ادا کرنا واجب ہے ان کے نزدیک اس کے گنہگار ہونے میں کوئی اشکال نہیں ہے اور جن ائمہ کے نزدیک تاخیر کے ساتھ یعنی مرنے سے پہلے تک ادا کرنا واجب ہے ان کے نزدیک اس لئے گنہگار ہوگا کہ عمر کے آخری اس حصہ میں جس میں حج کیا جاسکے اس کا وجوب تنگ ہوکر ( سمٹ کر ) متعین ہوجاتا ہے پس اس پر واجب ہے کہ اگر وہ قادر ہے تو خود حج ادا کرے اور اگر افعالِ حج خود ادا کرنے سے ایسے عذر کے ساتھ عاجز ہے جو شرعاً معتبر ہے اور اس کو اپنے مال سے کسی دوسرے شخص کو نیابت کے طور پر بھیجنے کی وصیت کرکے حج ادا کرانا ممکن ہے تو اس پرواجب ہے کہ وہ ا س کی وصیت کرے اگر اس نے وصیت نہ کی یہاں تک کہ مرگیا تووہ حج کی ادا ئیگی کے امکان کے باوجود فرض کو اپنے وقت پر ادا نہ کرنے کی وجہ سے گنہگار ہوگا، پس وہ گنہگار تو ہوگا لیکن ائمہ احناف کے نزدیک دنیا وی احکام میں حج اس سے ساقط ہوجائے گا حتیٰ کہ وارث پر اس کا ترکہ میں سے اس کی طرف سے حج کرانا لازم نہیں ہوگا کیونکہ حج ایک عبادت ہے اور عبادت خواہ بدنی ہو یا مالی جس پر بھی ہو احناف کے نزدیک دنیاوی احکام میں موت کے ساتھ ساقط ہوجاتی ہے اور اگر وارث خود( تبرعاً ) اس کی طرف سے حج ادا کرنا چاہے تو اس کا حج ادا کردے، اور امام ابو حنیفہؒ نے کہا ہے کہ میں امید کرتا ہوں کہ انشاء اﷲ اس میت کی طرف سے جائز وکافی ہوجائے گا ۲؎