عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
طرف سے حج نہیں کیا یا اس سال حج نہیں کیا گواہ قائم کریں تو البتہ گواہی قبول ہوگی کیونکہ مامور کااقرار کے الفاظ کہنا اثبات ہے نفی نہیں ہے لیکن اگر وہ مامور حاجی میت کا مقروض ہوا ور اس کو اس بات کا امر کیا گیا ہو کہ وہ اُس مال میں سے خرچ کرے جو اس کے ذمہ میت کا قرض ہے اور باقی مسئلہ اسی طرح ہو جس طرح اوپر بیان ہوا تو مامور کی تصدیق نہیں ہوگی لیکن اگر وہ اس پر گواہ پیش کرے گا تو تصدیق کی جائے گی اس لئے کہ اب وہ قرضہ ادا کرنے کا مدعی ہے، یہ مسئلہ اکثر کتب فقہ میں اسی طرح مذکورہے پس اسی پر اعتماد کیا جائے گا برخلاف اس کے جو خزانۃ الاکمل میں ہے ۶؎ (۱۳)نفسِ حج کے متعلق جتنے دم واجب ہوتے ہیں یعنی دمِ شکر اور دمِ احرام یعنی ممنوعاتِ احرام کا ارتکاب کا دم مثلاً شکار کرنے ، خوشبو استعمال کرنے ، حلق کرانے یا بال کاٹنے اور جماع وغیرہ کی جزا بالاتفاق مأمور پر ( اس کو اپنے مال سے ) واجب ہوگی لیکن دمِ احصار آمر کے مال میں واجب ہوگا۔ قدوری نے اپنی شرح مختصر الکرخی میں اور قاضی نے اپنی شرح مختصر الطحاوی میں اس کو اختلاف ذکر کئے بغیر بیان کیا ہے اور جامع الصغیر کے بعض نسخوں میں مذکور ہے کہ امام ابو یوسفؒ کے نزدیک دمِ احصار مامور حاجی پر ہے اور امام ابو حنیفہ و امام محمدرحمہ اﷲکے نزدیک آمر پر ہے قاضی خاں نے بھی شرح جامع الصغیر میں اسی طرح ذکر کیا ہے ۱؎ ۔ جاننا چاہئے کہ حج میں واجب ہونیوالے تمام دم ( قربانی) تین طرح کے ہیں اور وہ یہ ہیں : دمِؔ شکر جو کہ قران اور تمتع کرنیوالے پر واجب ہے، دمِؔجنایت، دمِؔاحصار، پس جو دمِ شکر ہے وہ دمِ نسک ہے جو بطورِ شکر واجب ہوتا ہے اور نسک ( حج ) کے تمام افعال حاجی پر وارد ہوتے ہیں ، اسی طرح دمِ شکر بھی جو کہ دمِ نسک ہے حج کرنے والے پر وارد ہوگا پس اگر آمر نے مامور کوقران یا تمتع کرنے کا امر کیا