عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہوتے کیونکہ حج کا نفقہ ذوی الارحام کے نفقہ کی مانند ہے پس یہ موت سے باطل ہوجاتا ہے اور مال وارثوں کی طرف لوٹتا ہے ۴؎ ۔ اور اگر مامور نے اپنے احرام کی حالت میں جماع کیا تو وصی کے لئے ضر وری ہے کہ وہ اس سے تمام نفقہ واپس لے لے کیونکہ اس نے صحیح احرام میں خرچ کرنے کا امر کیا ہے اور وہ پایا نہیں گیا ۵؎ (۱۲) اگر مامور راستہ سے واپس آگیا اور وہ میت کے مال میں سے کچھ خرچ کرچکا ہے اُس نے آکر کہا کہ میں حج کرنے سے ( فلاں عذر سے ) روکا گیا ہوں اور وارثوں یا وصی نے اُس کو جھوٹا ٹھہرایا تو مامورکی تصدیق نہیں کی جائے گی اور وہ میت کے مال میں سے جس قدر خرچ کرچکا ہے اس کا ضامن ہوگا لیکن اگر وہ مانع کوئی ایسا ظاہر امر ہوجو اس کے صدق پر شاہد ہو ( مثلاً راستہ میں حاجیوں کا قافلہ لُٹا ہو یا مدت تک بارش کی جھڑی لگی ہو ) تو البتہ اس کی تصدیق کی جائے گی اس لئے کہ جب ضمان کا سبب ظاہر ہوگیا تو جب تک اس کے صدق پر دلالت کرنے والا ظاہر امر نہ پایا جائے اس ضمان کو ہٹانے میں اس کی تصدیق نہیں کی جائے گی، اور اگر مامور نے یہ کہا کہ میں آمر ( میت) کی طرف سے حج کرچکا ہوں اور وارثوں یا وصی نے اس کی تکذیب کی تو مامور سے قسم لے کر اس کی تصدیق کی جائے گی کیونکہ اس نے اس مال سے جو اس کے پاس امانت تھا بری الذمہ ہونے کا دعوٰی کیا ہے اور وارثوں یا وصی کے گواہ اس بات پر قبول نہیں کئے جائیں گے کہ مامور قربانی کے دن ( دسویں ذی الحجہ) مکہ معظمہ اور اس کے آس پاس کے علاوہ فلاں شہر میں تھا اس لئے کہ یہ شہادت نفی پر ہے یعنی اس قول سے وارثوں یا وصی کا مقصود یہ ہے کہ مامور کے حج کی نفی ہوجائے پس اگرچہ یہ قول اثبات ہے لیکن درپردہ نفی ہے اورنفی پر شہادت باطل ہوتی ہے لیکن اگر وارث یا وصی مامور کے اس اقرار پر کہ میںنے اس کی