عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
شخص کو معین نہیں کیا تو اب باقی نفقہ کے لئے اس کی وصیت باطل ہے کیونکہ وصیت مجہول ہے اور اس کا حیلہ یہ ہے کہ وصیت کرنے والا وصی کو یہ کہ دے کہ نفقہ میں سے جو کچھ بچے تجھے اختیار ہے جس کو چاہے دیدے اور اگر وصیت کرنے والے نے اپنی طرف سے حج کرنے کے لئے کسی شخص کو معین کردیا تو اس کی یہ وصیت ( کہ بچا ہوا مال مامور کے لئے ہے ) جائز ہے ۵؎ ۔ اور لباب ودرمختار میں اسی کو اختیار کیا ہے اور اصح یہ ہے کہ مأمور حاجی کے لئے یہ وصیت کرنا جائز ہے خواہ وصیت کرنے والے نے اپنی طرف سے حج کرنے کے لئے کسی شخص کو معین کیا ہو یا نہ کیا ہو جیسا کہ شرائطِ نیابت کی چوتھی شرط میں گزرچکا ہے ۶؎ اور اگر مامور نے یہ شرط کی کہ حج کے بعد جو نفقہ بچ جائے وہ اس کا ہے تو یہ شرط باطل ہے اور بچی ہوئی نقدی وغیرہ وارثوں کو واپس کرنا اس پر واجب ہے ۷؎ (۱۱) جب تک مامور نے احرام نہیں باندھا آمر کے لئے جائز ہے کہ وہ اس سے اپنا مال واپس لے لے اور اگر مامور نے احرام باندھ لیا تو اب آمر کو اپنا مال واپس لینا جائز نہیں ہے ۸؎ اور اب مامور مُحرِم اپنے احرام کے افعال ادا کرے اور حج سے فارغ ہونے کے بعد بھی جب تک مامور اپنے اہل و عیال میں واپس نہ آجائے آمر کو نفقہ واپس لینا جائز نہیں ہے ( البتہ واپس آنے کے بعد بقیہ نفقہ واپس لے گا) اور جب آمر نے اپنا نفقہ واپس لینے کا ارادہ کیا اس وقت مامور نے احرام باندھاتو آمر کو اس سے نفقہ واپس لینا جائز ہے اور یہ احرام میت یعنی آمر کی طرف سے تطوّعاً ( تبرعاً واحساناً) ہوگا اور جب آمر اپنا مال واپس لے گا تو مامور کا اپنے شہر واپس آنے تک کا خرچہ میت یعنی آمر کے مال سے ہوگا ۹؎ اور اسی طرح وصی یا وصی نہ ہونے کی صورت میں وارث کے لئے بھی یہی حکم ہے پس اگر