عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
گا ، اس بارے میں قدوری نے اپنی شرح مختصرالکرخی میں ذکر کیا ہے کہ وہ آمر کے مال سے خرچ کرے اور اس میں ہمارے کسی امام کا خلاف ذکر نہیں کیا ، اور قاضی نے اپنی شرح مختصر الطحاوی میں ذکر کیا ہے کہ امام محمدؒ کے قول کی بنا پر وہ آمر کے مال سے خرچ کرے اور یہ ظاہر الروایت ہے اور امام ابو یوسفؒ کے نزدیک آمر کے مال سے خرچ نہ کرے ( بلکہ اپنے مال سے خرچ کرے ) اور یہ حکم اس وقت ہے جبکہ اس نے مکہ معظمہ کو اپنا وطن نہ بنالیا ہو لیکن اگر مکہ معظمہ کو اپنا وطن بنالیا پھر وہاں سے واپس ہوا تو بلا خلاف آمر کے مال سے خرچ نہ کرے ، اوپر جو امام ابو یوسفؒ کا قول مذکور ہوا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جب اس نے پندرہ دن یا زیادہ اقامت کی نیت کرلی تو اس کا سفر کا حکم منقطع ہوگیا اس لئے اب اس کا نفقہ آمر کے مال کی طر ف نہیں لوٹے گا جیسا کہ اگر وہ مکہ معظمہ کو وطن بنالے تو یہی حکم ہے اور ظاہر الروایت کی وجہ یہ ہے کہ اقامت سفر ترک کرنے کو کہتے ہیں سفر ختم کرنے کو نہیں کہتے اورترک کی ہوئی چیز لوٹتی ہے لیکن مکہ معظمہ کو وطن بنالینے سے سفر منقطع ہوجاتا ہے اور منقطع چیز نہیں لوٹتی ۲؎ ۔ اور شرح الکنز میں بھی اسی طرح ہے کہ اگر مکہ معظمہ کو وطن بنالیا تو آمر کے مال سے اس کانفقہ منقطع ہوجائے گا خواہ وہ وہاں کم عرصہ رہے یا زیادہ عرصہ پھر اگروہ وہاں سے واپس روانہ ہوا اگرچہ دوہی دن کے بعدہوتو اس کا نفقہ بالاتفاق آمر کے مال کی طرف لوٹے گا ۳؎ اور اگر مکہ معظمہ میں شرعی مدتِ اقامت ( پندرہ دن یا زیادہ) کی نیتِ اقامت کے بغیر قیام کیا تو ہمارے اصحاب نے کہا ہے کہ اگر مدتِ معتاد ( جتنا عرصہ عام طور پر لوگ ٹھہر تے ہیں ) کے مطابق قیام کیا تو اسکا نفقہ میت کے مال سے منقطع نہیں ہوگا یعنی وہ آمر کے مال سے خرچ کرے گا اور اگر مدتِ معتاد سے زیادہ قیام کیا تو اس کا نفقہ میت ( آمر ) کے مال