عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اگر وہ تین دن سے زیادہ ٹھہر ا تو ان ایام کا نفقہ اس کے اپنے مال میں سے ہوگا یعنی اگر حج سے فارغ ہونے کے بعد تین دن قیام کیا تو آمرکے مال سے خرچ کرے اور اگر تین دن سے زیادہ ٹھہر ا تو اپنے مال سے خرچ کرے کیونکہ استراحت کی ضرورت کے لئے تین دن تک ٹھہر نا ثابت ہے اس سے زیادہ نہیں، اور یہ امام محمدؒ سے ابن سماعہ کی روایت کی بِنا پر ہے وہ روایت یہ ہے کہ اگر کسی شہر میں تین دن یا اس سے کم قیام کیا اور میت کے مال سے خرچ کیا تو اس پر ضمان لازم نہیں ہوگا اور اگر اس سے زیادہ ٹھہر ا تو اپنے مال سے خرچ کرے اھ(اور یہ ان کے زمانہ کی بات ہے لیکن ہمارے زمانہ میں اس پر عمل نہیں ہوسکتا اس کی تفصیل آگے بدائع سے آتی ہے، مؤلف) اور جب قافلہ روانہ ہوجانے کے بعد مامور کے قیام کا نفقہ اس کے اپنے ذمہ ہوگیا پھر جب وہ وہاں سے روانہ ہوجائے تو اب میت کے مال سے خرچہ کرنے لگے کیونکہ اس کی واپسی کا خرچہ میت کے مال میں سے واجب کیا گیا ہے اور فتح القدیر میں ہے کہ امام ابو یوسفؒ سے روایت ہے کہ اب وہ اپنی واپسی کا نفقہ میت کے مال میں سے نہ کرے کیونکہ اب اس کی واپسی اپنے لئے ہے میت کے لئے نہیں ہے لیکن ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ اس کا اصل سفر میت کے لئے ہے پس جب تک یہ سفر باقی ہے اس کا نفقہ بھی میت کے ذمہ رہے گا کذافی المبسوط۔ لیکن اگر اس نے مکہ معظمہ کو وطن بنالیا ( تو اس کانفقہ آمر کے مال سے منقطع ہوگیا ) پھر اگر اس کو اپنے شہر کی طرف لوٹنے کی ضرورت پیش آگئی تو اب وہ واپسی کے وقت میت کے مال سے خرچ نہ کرے اپنے پاس سے خرچ کرے ۱؎ ۔ بدائع میں کہا ہے کہ اگر مامور نے پندرہ دن یا زیادہ اقامت کی نیت کی حتیٰ کہ آمر کے مال سے اس کا ان ایام کا نفقہ منقطع ہوگیا پھر وہ وہاں سے واپس روانہ ہوا تو کیا اب واپسی میںوہ آمر کے مال سے خرچ کرے