عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
یہ سب اس وقت ہے جبکہ آمر نے کسی آدمی کو حج کے لئے معین کردیا ہو لیکن اگر آمر نے کسی کو معین نہیں کیا اور وہ وصی کو یہ کہدے کہ خرچہ میں سے بچی ہوئی رقم وغیرہ جس کو تو چاہے دیدے تو اب وصی کو اختیار ہے کہ جس شخص کو وہ حج کے لئے معین کرے اس کو یہ بچی ہوئی رقم وغیرہ دیدے اور اگر وصیت کرنے والے نے مطلق وصیت کی اور کہا کہ نفقہ میں جو کچھ بچے وہ مامور کے لئے ہے اور وصیت کرنے والے نے مامور کو معین نہیں کیا بلکہ وصی نے کسی شخص کو اس کے حج بدل کے لئے مامور کیا تو یہ وصیت باطل ہے اس لئے کہ مامور مجہول ہے ( اور اس کا حیلہ وہی ہے جو اوپر بیان ہوا کہ آمر وصی کو اختیار دیدے کہ جس کو وہ حج کے لئے مقرر کرے بقیہ نفقہ اس کو دیدے ۸؎ ) اور اگر وصیت کرنے والے نے کسی معین شخص کو مامور کیا تو اس کی بقیہ نفقہ کے لئے وصیت اس مامور کے لئے درست ہے ( یہ مسئلہ مزید تفصیل کے ساتھ نمبر ۱۰ میں مذکور ہے ،مؤلف) اور فقیہ ابو اللیث نے کہا ہے کہ اگر میت نے یہ کہہ دیا کہ حج سے واپس آنے کے بعد باقی نفقہ تیرے لئے بخشش( عطیہ) ہے تو کوئی مضائقہ نہیں اور یہ ایسا ہی ہے جیساکہ اس نے اس کے لئے وصیت کی ہے ۹؎ (خلاصہ یہ ہے کہ آمر اپنے مامور کو کہہ دے کہ حج کے خرچہ سے جو روپیہ یا کپڑے وغیرہ بچیں وہ تمہارا ہے میں نے تم کو بخش دیا بلکہ آمر کو چاہیے کہ مامور کو کچھ زائد رقم دے کر اجازت دیدے کہ اس سے اپنے حسب منشا کھانے پینے وغیرہ میں فراخی کرے اور بیماری میں علاج کرائے اور کچھ تبرکات زمزم، کھجوریں وغیرہ عزیز واقارب واحباب کو دینے کے لئے لیتا آئے تاکہ مأمور کو خرچ کرنے میں سہولت ہو اور حساب کتا ب رکھنے کی دقت نہ ہو، اور واپسی کے بعد مستعمل کپڑے وغیرہ بھی مامور کو بخش دے