عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
(۳) مامور کو چاہئے کہ آمر سے خرچ میں توسع وفراخی یعنی ہر چیز میں خرچ کرنے کی اجازت لے لے تاکہ اس پر تنگی اور مواخذہ نہ ہو اور آمر کو چاہئے کہ حج کا معاملہ مامور کے سپر د کردے اور یہ کہدے کہ تو اس رقم سے میری طرف سے افراد یاقران یا تمتع جس طرح کا چاہے حج کر ۳؎۔ شرح اللباب میں ملا علی قاریؒ نے کہا ہے آمر کی طرف سے تمتع کرنا جائز نہیں ہے اور کلام مشائخ میں تفویضِ مذکورہ کو حج افراد اور قران کے ساتھ مقید کیا گیا ہے اور لباب المناسک میں تمتع کو اس کے ساتھ ملا نے میں سہو ہوا ہے اور اس بارے میں کافی بحث کی ہے لیکن بحرالرائق وغیرہ میں ہے کہ آمر کے امر سے مامور کا حج تمتع کرنا جائز ہے اس سے لباب المناسک کے اس اضافہ کی موافقت ہوتی ہے ۴ ؎ اور قاضی عید نے اس کتاب کی شرح میں لکھا ہے کہ یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ یہ سہو ملا علی قاری کو ہوا ہے اس لئے کہ اگر میت مامور کو حج تمتع کرنے کاامر کرے اور مأمور تمتع کرے تو درست ہے اور اس میں ائمہء سلف کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے کہ وہ آمر کا مخالف نہیں ہوگا پس غور کرلیجئے اھ ۵؎ اور کہا گیا ہے کہ اسی بنا پر آمر کے لئے جائز ہے کہ وہ مامور کو اجازت دیدے کہ وہ پہلے اس کی طرف سے عمرہ ادا کرے پھر اس کی طرف سے حج بھی ادا کرے واﷲ اعلم بالصواب ۶؎ ۔ اور جب آمریہ چاہے کہ حج کے خرچ میں سے جو کپڑے اور نقدی وغیرہ بچے وہ مامور کے لئے ہوں تو اس کو خرچہ کی رقم دیتے وقت یہ کہہ دے کہ میں نے تجھ کو وکیل بنایا کہ بچا ہو ا مال اور سامان اپنے لئے ہبہ کرلے اور اپنے قبضہ میں لے لے ( یعنی یہ کہہ دے کہ حج کے خرچہ میں سے جو روپیہ اور کپڑے وغیرہ بچیں وہ میں نے تم کو بخش دیا وہ تمہارا ہے ) اور اگر وہ مرنے کے قریب ہے تو کہے کہ اگر میں مرجاؤں تو میری وصیت ہے کہ باقی مال تمہارا ہے ۷؎ ۔ اور