عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نفلی ادا ہوگا کیونکہ وہ وقت فرض کے لئے معین نہیں ہے بلکہ فرض و نفل دونوں طرح کے حج کی ادائیگی کے لائق ہے پس جب اس وقت کو نفلی حج کے لئے معین کرلیا تو وہ وقت اسی کے لئے معین ہوگیا لیکن مطلق حج کی نیت کرنے سے وہ حج فرض کی جگہ واقع ہوگا کیونکہ اس صورت میں فرض حج کی نیت دلالۃً موجود ہے اس لئے کہ جس شخص پر حج فرض ہو وہ بظاہر نفل کی نیت نہیں کرتا پس مطلق نیت اس کے حال کی دلالت کے ساتھ مقید کی طرف منتقل ہوگی لیکن دلالت اس وقت معتبر ہوگی جبکہ اس کے خلاف نص (وضاحت) موجود نہ ہو اور جب اس نے نفلی حج کی نیت کی تو دلالت کے خلاف نص (وضاحت) موجود ہے پس اس صورت میں دلالت معتبر نہیں ہوگی اور شبرمہ والی حدیث افضلیت پر محمول ہوگی ۱؎ پس افضل یہ ہے کہ ایسے شخص سے حج کرایا یائے جو آزاد ہومناسکِ حج کا عالم ہوااور اپنا فرض حج پہلے ادا کرچکا ہو ۲؎ (۲) اور یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ اختلاف فقہا کی رعایت کرنے کی تعلیل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ کراہت تنزیہی ہے کیونکہ اس طرح عمل کرنا کہ فقہا کے اختلاف سے بچ جائے مستحب ہے پس سمجھ لیجئے ۳؎ اوراسی طرح بدائع وغیرہ کا یہ قول کہ ’’ ایسے شخص سے حج کرانا افضل ہے جو آزاد ہو ،مناسکِ حج کا عالم ہو اوراپنا حج کرچکا ہو ‘‘ دلالت کرتا ہے کہ جس شخص نے اپنا حج ادا نہ کیاہو اس سے حج کرانا مکروہ تنزیہی ہے ورنہ وہ’’ ایسے شخص سے حج کرانا افضل ہے ‘‘کی بجائے واجب ہے لکھتے ۴؎ لیکن فتح القدیر میں اس مسئلہ میں طویل استدلال کے بعد کہاہے کہ دلیل کا مقتضیٰ یہ ہے کہ جس نے اپنا حج نہ کیا ہو اور اس پر حج فرض ہوچکا ہو یعنی وہ زاد وراحلہ کا مالک ہو اور تندرست بھی ہو تو اس کاکسی دوسرے شخص کی طرف سے حج کرنا مکروہ تحریمی ہے اس لئے کہ جب ایسی صورت ہوتو