عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
(باختلافِ روایات) آپﷺ نے فرمایا کیا تو اپنا حج ادا کرچکا ہے ۔ اس شخص نے کہا نہیں پھر آپﷺ نے فرمایا پہلے اپنا حج ادا کرو پھر شبرمہ کی طرف سے حج ادا کرنا۔ پس اس حدیث سے امام شافعیؒ کا استدلال دووجہ سے ہے ایک یہ کہ آپ ﷺ نے اس شخص سے دریافت فرمایا کہ وہ اپنا حج ادا کرچکا ہے یا نہیں اگر ان دونوں صورتوں کا حکم مختلف نہ ہوتا تو آپ کے اس سوال کا کوئی مقصد نہ ہوتا اور دوسری وجہ یہ ہے کہ آپﷺ نے اس کو فرمایا کہ پہلے اپنا حج ادا کرو پھر شبرمہ کی طرف سے حج ادا کرنا پس یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اپنا حج ادا کرنے سے پہلے کسی دوسرے شخص کی طرف سے حج کرنا جائز نہیں ہے اور اس لئے بھی کہ اس کا اپنا حج اس پر فرض ہے اور کسی دوسرے کی طرف سے فرض حج ادا کرنا اس پر فرض نہیں ہے (یعنی وہی شخص اس کے لئے معین نہیں ہے) پس فرض کو غیر فرض کے لئے ترک کرنا جائز نہیں ہے احنا ف کی دلیل خثعمیہ عورت والی حدیث ہے (جو پہلے بھی بیان ہوچکی ہے) کہ آنحضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے لئے فرمایا کہ تو اپنے باپ کی طرف سے حج کر اور آپ ﷺ نے اس عورت سے یہ دریافت نہیں فرمایا کہ تو نے اپنا حج ادا کرلیا ہے یا نہیں، اگر ان دونوں صورتوں کا حکم مختلف ہوتا تو آپ ﷺ اس عورت سے ضرور دریافت فرماتے اور اس لئے بھی جائز ہے کہ اپنا حج ادا کرنے کے لئے کوئی وقت معین نہیں ہے (کہ اس کے بعد جائز نہ ہو) پس جس طرح وہ وقت اس کا اپنا حج ادا کرنے کے لائق ہے اسی طرح دوسرے کا حج ادا کرنے کے بھی لائق ہے پس جب اس نے اس وقت کو کسی دوسرے کے حج کے لئے معین کرلیا تو وہ حج اس دوسرے شخص کی طرف سے واقع ہوگا اسی لئے ہمارے فقہا نے کہا ہے کہ جس شخص نے اپنا حج ادا نہیں کیا اگر وہ نفلی حج کی نیت سے حج کرے گا تو اس کا وہ حج