عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بالاتفاق مامور کی طرف سے واقع ہوگا اس لئے کہ حدیث شریف فرض حج کے بارے میں وارد ہوئی ہے نفلی حج کے بارے میں نہیں اور آمر کے لئے اسی طرح کے نفقہ کا ثواب ہے جبکہ مامور آمر کے مال سے خرچ کرے لیکن اس حج کا ثواب مامور آمر کو بخش دیتا ہے۔ ۳؎ بعض شارحین نے اسی کی صراحت کی ہے اور لباب المناسک و درمختار میں اسی کو اختیار کیا ہے اور اتقانی نے غایۃ البیان میں اس کو رد کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ خلافِ روایت ہے کیونکہ حاکم شہیدؒ نے کافی میں کہا ہے کہ تندرست آدمی کی طرف سے کسی شخص کا نفلی حج کرنا جائز ہے اور دراصل وہ حج حج کرانے والے کا (یعنی آمر کا) ہوگا ۱ھ ۴؎ اور مُلّا مسکینؒ کی شرح کنز میں ہے کہ کسی دوسرے شخص کی طرف سے حج کرنے والے کے متعلق صحیح مذہب یہ ہے کہ اصل حج اس کی طرف سے ہوگا جس کی طرف سے حج ادا کیا ہے (یعنی آمر کی طرف سے) خواہ وہ حج فرض ہو یا نفل، اور امام محمدؒ سے روایت ہے کہ وہ حج کرنے والے (مامور) کی طرف سے واقع ہوگا اور محجوج عنہ (آمر) کو نفقہ کا ثواب ملے گا لیکن پہلا قول صحیح ہے ۱ ھ ۵؎ (۴) علامہ نوح آفندیؒ نے مناسک القاضی سے ذکر کیا ہے کہ جو شخص اپنا فرض حج ادا کرچکا ہو اس کو اپنی طرف سے حج کرنے کی بہ نسبت کسی دوسرے شخص کی طرف سے حج کرنا افضل ہے کیونکہ اس کا نفع متعدی ہے (یعنی دوسرے کو بھی پہنچتا ہے) اور یہ نفع کو صرف اپنی ذات تک محدود رکھنے سے افضل ہے ۱ ھ ۶؎ اور حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے مرفوعاً روایت ہے کہ جس شخص نے کسی میت کی طرف سے حج ادا کیا تو میت کے لئے ایک حج اور حج کرنے والے کے لئے سات حج لکھے جائیں گے اور حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہ سے مرفوع روایت ہے کہ جس شخص نے اپنے باپ یا ماں کی طرف