عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بقیہ تمام افعالِ حج ادا کرکے احرام سے باہر ہوجائے، تفصیل حج فوت ہونے کے بیان میں درج ہے، مؤلف)۔ (۵) اگر مامور کا حج اس کی اپنی کوتاہی سے فوت ہوا ہو تو اس پر آئندہ سال اپنے مال سے میت کی طرف سے حج کرنا واجب ہے پس اگر اس نے آئندہ سال اپنے مال سے میت کی طرف سے حج کردیا تو وہ حج میت کی طرف سے جائز ہوجائے گا اور یہ مامور ضمان سے بری ہوجائے گا ۱؎ ۔ (۶) اگر مامور کا حج کسی قدرتی عذر سے فوت ہوا تب بھی آئندہ سال اس پر حج کرنا واجب ہے ۲؎ لیکن اس بارے میں ہمارے فقہا کا اختلاف ہے کہ جب آئندہ سال اس نے وہ حج قضا کیا تو وہ آمر کی طرف سے واقع ہوگا یا مأمور کی طرف سے اور اگر آمر کی طرف سے واقع ہوگا تو کیا مامور کو آئندہ سال اپنے مال سے حج کرنے پر مجبور کیا جائے گا، امام محمد رحمہ اﷲ کا قول ہے کہ حج اس شخص کا واقع ہوتا ہے جو حج کرے، پس امام محمد رحمہ اﷲ کے قول کی بناء پر مأمور آئندہ سال اپنے مال سے حج کرے اور وہ حج مأمور کی طرف سے واقع ہوگا ( اور اس پر مزید کچھ واجب نہیں ہوگا) اس کو نہر الفائق میں سراج الوہاج سے نقل کیا ہے لیکن منتقٰی میں ہے کہ جب کسی شخص نے اپنے حج کی وصیت کی اور وصی نے کسی شخص سے حج کرایا اور اس شخص نے میت کی طرف سے حج کا احرام باندھا وہ سفرِ حج پر روانہ ہوا اور اس کا حج فوت ہوگیا تو امام محمد رحمہ اﷲ نے کہا ہے کہ اگر میت کا نفقہ کفایت کرے تو اس کے شہر سے اس کا حج کرایا جائے ورنہ جہاں سے نفقہ کفایت کرے وہاں سے کرایا جائے اور مأمورِ اول پر اپنے مال سے اس حج کی قضا واجب ہے جس کو اس نے اپنی کوتاہی سے فوت کردیا ہے اور جو کچھ وہ خرچ کرچکا ہے اس پر اس کا