عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہوجاتا ہو تو اس سے لازم آتا ہے کہ نیت اور اعمالِ حج کا وقوع میت کی طرف سے ہو نہ کہ فاعل کی طرف سے لیکن یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس صورت میں بھی اعمال کا وقوع عامل ہی کی طرف سے ہوگا جیسا کہ فتح القدیر اور قاضی خاں وغیرہ کی مطلق عبارت کا مقتضیٰ یہی ہے لیکن ا س سے اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے میت کا فرض اس کے ذمہ سے اُتر جائے گا جیسا کہ نص اور حدیث خثعمیہ سے ثابت ہوتا ہے اگرچہ یہ خلاف قیاس ہے اور اسی لئے امام ابوحنیفہ رحمہ اﷲ نے اس حکم کو مشیتِ الٰہی کے ساتھ معلق کیا ہے اور اس سے فاعل کا فرض بھی اس کے ذمہ سے ساقط ہوجائے گا جیسا کہ احادیث مذکورہ سے مستفاد ہوتا ہے ۳؎ اور اسی لئے اس بارے میں وارث کا حکم اجنبی کے حکم کے مخالف ہے۔ ۴؎ فائدہ : واضح ہو کہ جب والدین میں سے کوئی فوت ہوجائے اور اس کے ذمہ حج فرض ہو اور اس نے اس کی ادائیگی کی وصیت نہ کی ہو تو بیٹے کو اس کی طرف سے تبرعاً (بطورِ احسان) حج کرا دینا یا خود اس کی طرف سے حج کرنا بہت زیادہ مندوب (مستحب) ہے جیسا کہ دار قطنی میں حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ نبی علیہ الصلوۃ والتسلیم نے فرمایا جس نے اپنے والدین کی طرف سے حج کیا یا ان کا قرض ادا کیا تو قیامت کے روز وہ شخص نیکوکاروں کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ نیز دارقطنی نے حضرت جابر رضی اﷲ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے اپنے باپ یا اپنی ماں کی طرف سے حج کیا تو اس نے ضرور اس کی طرف سے حج ادا کیا اور اس کے لئے دس حج کا ثواب ہے، اور دارقطنی ہی میں زید بن ارقم رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب کسی آدمی نے اپنے والدین کی طرف