عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کیونکہ اس صورت میں اس کاامردلالۃً موجود ہے اور نص سے بھی اس کا ثبوت ہوتا ہے بخلاف اس صورت کے کہ میت نے اس کو اس کی ادائیگی کی وصیت کی ہو کیونکہ اس صورت میں میت کا مقصد اپنے مال سے خرچ کرانا ہے پس اس صورت میں وارث کا اس کی طرف سے تبرع کرنا ( بطور احسان ادا کرنا) صحیح نہیں ہے اور بخلاف اجنبی کے مطلقاً کیونکہ اس کی طرف سے امر (دلالۃً بھی) نہیں پایاجاتا ۱؎ ۔ اور یہ بھی معلوم ہوچکا ہے کہ جب دوشخصوں میں سے ہر ایک نے اس کوامر کیا کہ وہ اس کی طرف سے حج کرے اور اس نے دونوں کی طرف سے حج کااحرام باندھا تو وہ حج فاعل ( مامور) کی طرف سے واقع ہوگا اور اس سے مامور کافرض حج اس کے ذمہ سے ساقط ہوجائے گا اگرچہ وہ اس کا ثواب کسی دوسرے شخص کو بخش دے جیساکہ شرنبلالیہ میں اس کو بیان کیا ہے اور اگر ان دونوں کے امرکے بغیر ان دونوں کی طرف سے حج کااحرام باندھا تب بھی یہی حکم ہے ( کہ وہ حج مامور( حج کرنے والے ) کاواقع ہوگا اور اس سے اس کا فرض ساقط ہوجائے گا ،مؤلف)۔(پس گر کسی شخص نے حج کیا اور اس کا ثواب والدین کی ارواح کو بخش دیا تب بھی حج کرنے والے کا فرض حج ادا ہوگیا۔ بشرطیکہ نفل حج کی نیت نہ کی ہو، اگر مطلق حج کی نیت کرلی تب بھی فرض حج کی جگہ صحیح ہوجائے گا ۲؎ ۔ لیکن یہ حکم اس وقت ظاہر ہوگا جبکہ ان دونوں میں سے کسی ایک کے ذمہ حج فرض ہو اور اس نے اس کی ادائیگی کی وصیت کی ہو یا اس پر سرے سے حج فرض ہی نہ ہو،اس سے معلوم ہوا کہ ہر شخص اپنی فرض عبادت کو ادا کرنے کے بعد اس کا ثواب کسی دوسرے شخص کو بخش سکتا ہے جیسا کہ ہم نے باب ’’حج عن الغیر‘‘ کے شروع میں بیان کیا ہے لیکن اگر میت کے ذمہ حج فرض ہو اور اس نے اس کی ادائیگی کی وصیت نہ کی ہو اور اس سے میت کے ذمہ سے فرض ادا