عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سے حج کیا تو وہ اس کی طرف سے اور اس کے والدین کی طرف سے قبول ہوگا اور ان دونوں کی روحیں خوش ہوں گی اور اﷲ تعالیٰ کے نزدیک یہ شخص بہت نیکی کرنے والا لکھا جائے گا۔ ۱؎ (عبارات مذکورہ سے معلوم ہوا کہ اپنے والدین و دیگر عزیزوں وغیرہ کی طرف سے ان کی وصیت کے بغیر تبرعاً خود حج کرنا یا کسی دوسرے شخص سے کرانا جائز ہے اگرچہ مکہ مکرمہ ہی سے کرائے اور انشاء اﷲ العزیز اس سے اس میت کا حج فرض ادا ہوجائے گا، چنانچہ اسی بناء پر اکثر لوگ اپنے والدین و عزیزوں وغیرہ میں سے کسی کے لئے مکہ مکرمہ سے نیابتاً حج کراتے ہیں لیکن اس میں احتیاط نہیں کرتے اور غیر ذمہ دار لوگوں سے حج کراتے ہیں، سنا گیا ہے کہ بعض معلمین یا یہ کام کرنے والے دوسرے لوگ چند آدمیوں کی طرف سے روپیہ وصول کرکے ایک شخص سے حج کرا دیتے ہیں اور ان سب کو فقط ثواب بخش دیتے ہیں اﷲ بہتر جانتا ہے کہ یہ بات کہاں تک سچ ہے بس چاہیئے کہ کسی معتمد نیک صالح اور مسائل جاننے والے شخص سے حج بدل کرایا جائے اور خرچہ کے لئے مناسب گنجائش کے ساتھ روپیہ دیا جائے اور ظاہر میں بیع اور مزدوری کے طور پر معاملہ نہ کیا جائے، اور اگر تبرعاً حج کرانے والا شخص مالدار (غنی) ہے تو بہتر یہ ہے کہ تبرعاً بھی میقات ہی سے حج کرائے ورنہ جہاں سے جی چاہے کرادے۔ ۲؎ (۱۵) اور جب کسی ایک شخص نے مامور کو امر کیا کہ وہ اس کی طرف سے حج کرے اور دوسرے شخص نے اس کو امر کیاکہ وہ اس کی طرف سے عمرہ کرے، اگر ان دونوں نے اس کو جمع کرنے کی اجازت دے دی اور اس نے دونوں کو جمع کیا اور ان دونوں کی طرف سے قران کیا تو امام کرخیؒ نے ذکر کیا ہے کہ جائز ہے اور امام قدوری نے اپنی شرح مختصر الکرخی میں ذکر کیا ہے کہ امام ابوحنیفہؒ کے قول پر یہ جائز نہیں ہے کیونکہ اس نے مخالفت