عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ادانہیں کرے گی الحدیث۔ اس حدیث میں حج فرض کو بندوں کے قرض سے تشبیہ دی ہے اور بندوں کے فرض کا حکم یہ ہے کہ اگر وارث میت کی وصیت کے بغیر اس کا قرض اداکردے تو اس کی طرف سے ادا ہوجائے گا پس اسی طرح حج بھی اداہوجائے گا ، اور بھی احادیث ہیں جو دلالت کرتی ہیں کہ وارث کااس قسم کا تبرع کرنا شرعاً معتبر ہے ۴؎ اور اس لئے بھی جائز ہے کہ اس صورت میں میت کی طرف سے امر دلالۃً پایا جاتا ہے یعنی گویا کہ وہ میت کی طرف سے اس کے لئے مامور ہے ( جیسا کہ شرط ۴ میں بیان ہوچکا ہے، مؤلف) اور اس بِنا پر حج کے اعمال میت کی طرف سے واقع ہوں گے عامل (افعال اداکرنے والے مامور) کی طرف سے نہیں ۔ پس فتح القدیر کا قول’’ یہ اس بنا پر ہے کہ اس کا ان دونوں کی طرف سے نیت کرنا لغو ہوجائے گا الخ‘‘ یہ اس صورت کے ساتھ مخصوص ہے جبکہ ان دونوں پر حج فرض نہ ہو اور دونوں نے وصیت نہ کی ہو۔ (۱۲) اور ان دونوں مذکورہ مسئلوں میں والدین اوردو اجنبی شخصوں میں کوئی فرق نہیں ہے بلکہ صریحاً امر کے ہونے یا نہ ہونے کااعتبار ہے اور کنز وغیرہ میں جو اس مسئلہ کو والدین کی طرف منسوب کرکے بیان کیا ہے تو یہ قید احترازی نہیں ہے بلکہ اس کا فائدہ یہ ہے کہ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ بیٹے کے لئے یہ بہت زیادہ مندوب ہے جیسا کہ اس کابیان آگے آتا ہے اور اس مسئلہ میں والدین کی قید لگانے کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ مبہم نیت کرنے کے بعد ان دونوں میں سے جس کواس حج کے لئے معین کردیا اس سے اس کا فرض حج ساقط (یعنی ادا) ہوجائے گا جبکہ اس کی وصیت کے بغیر اداکیا ہو کیونکہ اس کاامر دلالۃً موجود ہے جیساکہ پہلے بیان ہوچکا ہے اوراسی حکم سے وارث اور اجنبی میں فرق کیا جائے گا کیونکہ اجنبی نہ صراحۃً مامور ہے نہ دلالۃً اور دوسرے کی طرف سے حج کرنے میں