عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
طوالت درج نہیں کی وہاں ملاحظہ فرمائیں( مؤلف) اور اگر متروکہ تہائی مال میں اس کے شہر سے حج کرانے کی گنجائش نہ ہوتو استحساناً جہاں سے پورا ہوسکے وہاں سے اس کاحج کرایا جائے ۸؎ (۳) اور اگر مامور بالحج راستہ میں مرجائے تب بھی امام صاحب وصاحبین کا وہی اختلاف ہے جو اوپر بیان ہوا ۹؎ پس اصل اختلاف تو اس شخص کے بارے میں ہے جو خود اپنا حج کرے اور راستہ میں مرجائے اور حج کرانے کی وصیت کرے، مامور بالحج کے راستہ میں مرجانے کی صورت کواسی پر قیاس کیا جائے گا ۱۰؎ پس اگر آمر کی طرف سے حج کرنے والا شخض راستہ میں مرجائے تو امام صاحبؒ کے نزدیک کسی دوسرے شخص سے آمر کا حج اس کے وطن سے کرایا جائے اور صاحبین کے نزدیک جہاں تک پہلا شخص جاچکا ہے وہا ں سے کرایا جائے ۱۱؎ (بہتریہ ہے کہ آمر صراحت کے ساتھ یہ کہدے کہ اگر مامور راستہ میں مرجائے تو وہاں سے کسی شخص کو میرے حج کے لئے بھیجا جائے ۱۲؎ ) پس جب مامور بالحج راستہ میں وقوفِ عرفہ سے پہلے مرگیا اور اس نے آمر کے مال میں سے کچھ حصہ خرچ کرلیا ہے یااس کا تمام نفقہ راستہ میں چوری ہوگیا اور میت نے مطلق حج کرنے کی وصیت کی تھی تو امام ابو حنیفہؒ نے کہا ہے کہ میت کے ترکہ کی تقسیم باطل ہوجائے گی اوروصیت کرنے والے کی طرف سے اس شہر سے اس مال سے جو اس کے ترکہ کے تہائی میں سے ورثہ اور مامور کے پاس باقی ہے دوبارہ حج کرایا جائے اور اگر باقی مال اس قدر نہ ہو کہ اس کے شہر سے حج ہوسکے تو جس جگہ سے اس مال سے حج ہوسکتا ہے استحساناً وہاں سے کرایا جائے پھر اگر دوسرا مامور بھی راستہ میں فوت ہوجائے یا دوبارہ اس کا نفقہ بھی چوری ہوجائے تو پھر جو باقی مال بچا ہے اس سے تیسری بار کسی آدمی کو بھیج کر اس کا حج کرایا