عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نے اپنی طرف سے حج کرنے کی وصیت مطلق طور پر کی اور مال اور مکان معین نہیں کیا خواہ وہ حج کے سفر میں مرا ہو یا تجارت وغیرہ کے سفر میں، اس کے متروکہ تہائی مال سے اس کے شہر سے حج کرایا جائے کیونکہ اس پر اس شہر سے حج کرنا فرض ہوا تھا جس میں وہ رہتا تھا پس اگر حج کے سفر کے علاوہ کسی اور کام یعنی تجارت وغیرہ کے سفر پر نکلا اور راستہ میں مرگیا او ر اس نے اپنی طرف سے حج اداکرنے کی وصیت کی تو بالاتفاق یعنی سب کے قول کے مطابق اس کے شہر سے حج کرایا جائے ، اور اگر حج کے سفر پر روانہ ہوا اوراور راستہ میں وقوفِ عرفہ سے پہلے مرگیا اگرچہ مکہ معظمہ میں مرا ہو اور اس نے اپنی طرف سے حج کرنے کی مطلق طور پر وصیت کی تو امام ابو حنیفہؒ نے فرمایا کہ اس کی طرف سے اس کے شہر سے حج کرایا جائے جبکہ اس کے متروکہ تہائی مال میں اس کی گنجائش ہو اور یہ قیاس ہے اور کتب متون میں اسی طرح مذکور ہے اور یہ وہ صورت ہے جس میں قیاس کو استحسان پر مقدم کیا گیا ہے اور صاحبین نے فرمایا کہ وہ شخص جہاں مرا ہے وہاں سے اس کا حج کرایا جائے جبکہ متروکہ تہائی میں اس کی گنجائش ہو اور یہ استحسان ہے۳ ؎ اور ہدایہ میں صاحبین کی دلیل کو آخر میں بیان کیا ہے ۴؎ اور نہایہ میں کہا ہے کہ ہدایہ میں صاحبین کی تعلیل کو آخر میں بیان کرنے میں یہ احتمال ہے کہ صاحبِ ہدایہ کے نزدیک صاحبین کا قول مختار ہے اس لئے کہ صاحبین کاقول استحسان اور امام ابو حنیفہؒ کا قول قیاس ہے اور عام صورتوں میں استحسان کاحکم ہی اختیار کیا جاتا ہے ۵؎ اورمعراج الدرایہ میں بھی اسی کی تائیدہے لیکن متون میں پہلا ہی قول لیا گیا ہے اور علامہ قاسم ؒ نے کتاب الوصایا میں اسی کی تصحیح ذکر کی ہے ۶؎ پس امام ابو حنیفہؒ کا قول ہی صحیح ہے ۷؎ اور صاحبین و امام ابو حنیفہؒ کے قول کی توجیہ بدائع مطبوعہ مبصر ۱۳۲۷ھ ص۔ ۲۲۲ پر مذکور ہے ہم نے بخوفِ