عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کرے (اور باقی پیدل چلے) اور امام حسنؒ نے امام ابو حنیفہؒ سے روایت کی ہے کہ اس کے شہر سے پیدل حج کرائیں اور تہائی ترکہ سے جہاں تک سواری پر جاسکتا ہے اگروہاں تک سواری پر سفر کرکے حج کرایا تب بھی جائز ہے پس امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک اس کو ان دونو ں صورتوں میں اختیار دیا گیا ہے اور شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ حج فرض کا تعلق سواری پر کرنے سے بھی ہے اور اس کے شہر سے کرنے سے بھی ہے اور اس کیلئے دونوں باتوں کی رعایت کرنا ممکن نہیں ہے اور دونوں میں سے ہر صورت میںایک لحاظ سے کمال اوردوسرے لحاظ سے نقص لازم آتا ہے پس دونوںصورتیں برابر ہوئیں ، دونوں میں سے جس صورت کو چاہے اختیار کرلے جائز ہے ، پس پہلی صورت میں مسافت کی مقدار یعنی پیدل چلنے کی مشقت کاثواب زیادہ ہے اور کیفیت ِ سفر ناقص ہے یعنی سواری پر سفر کرنے کی فضیلت سے محروم ہے اور دوسری صورت میں کیفیتِ سفر کی فضیلت یعنی سواری پر سفر کرنااس کو حاصل ہے اور پیدل چلنے کی مشقت کے ثواب سے محروم ہے ۱؎ (۵) اوریہ حکم اس وقت ہے جبکہ اس نے حج کرنے کی وصیت مطلق طور پر کی ہو لیکن اگر اس نے وصیت میں جگہ کو متعین کردیا تو اس کا اتباع کیا جائے کیونکہ وصیت کے بغیر کسی دوسرے سے حج کرانا واجب نہیں ہوتا پس وصیت کے مطابق اس کی مقدار بھی واجب ہوگی ۲؎ اور اگر اس کا متروکہ تہائی مال اس قدر نہیں ہے کہ اس سے اس کے شہر سے حج کیا جاسکے اور مامور نے اس جگہ سے حج کیا جہاں سے تہائی مال اس کے خرچ کے لئے پورا ہوسکتا ہے اورتہائی مال میں سے کچھ بچ گیا اورظاہر ہوا کہ اس مال سے وہ اس سے زیادہ فاصلہ والی جگہ سے سواری پر حج کرسکتا تھا تو وصی اس رقم کا ضامن ہوگا اور اس پر لازم ہے کہ وہ میت کی طرف سے اس جگہ سے حج کرائے جہاں سے وہ تہائی مال خرچ کرکے