عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
والے کو کردے( اور اس کی وضاحت آگے آتی ہے، مؤلف) اور یہ حکم اس لئے ہے کہ شریعت نے حج کی وصیت کرنے والے کی طرف سے حج کی ادا ئیگی کاجائز ہونا نیابت کے طریق پر جائز رکھا ہے اور نیابت امر سے ہی ثابت ہوتی ہے اس کے بغیر ثابت نہیں ہوتی ۔ (۲) اور جس شخص پر حج فرض ہے اگراس نے مرتے وقت حج کرانے کی وصیت نہیں کی اور کسی وارث نے جو اہلِ تبرع میں سے ہے اس کے امر کے بغیر خود حج اداکردیا یا کسی دوسرے شخص کو بھیج کر کرادیا تو انشاء اﷲ تعالیٰ اس میت کا حج فرض ادا ہوجائے گا کیونکہ اس بارے میں نص وارد ہے اور اس صورت میں دلالتاً امر بھی پایا جاتا ہے ۱؎ کیونکہ وارث اپنے مورث کے مال میں اس کا خلیفہ ( قائم مقام ) ہوتا ہے ( اور وارث اپنے مورث کے مال میں تصرف کرتا ہے) پس گویا کہ جو چیز میت پر واجب ہے اس کی ادائیگی کے لئے وارث اس کی طرف سے مامور ہے اور وارث کے علاوہ کسی دوسرے شخص کو اد کرنا اس لئے جائز ہے کہ میت کی طرف سے اس کی ادائیگی کے لئے ہر ایک کو اجاز ت ہوتی ہے اور بدائع میں اس کے جواز کے لئے نص کو بھی علت قراردیا ہے اور ظاہر یہ ہے کہ اس سے مراد حدیثِ خثعمیہ ہے ۲؎ اور وہ حدیث اس طرح پر ہے کہ قبیلہ خثعم کی ایک مہاجرہ عورت نے جس کا نام اسماء بنتِ عمیس (رضی اﷲ عنہا) ہے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں عرض کیا یارسول اﷲ ﷺ اﷲ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر حج فرض فرمایا ہے اور میرا باپ بہت بوڑھا ہے سواری پر ٹھہر نہیں سکتا ، کیا میں اس کی طرف سے حج ادا کردوں، آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہاں، متفق علیہ۔ اس روایت میں اس عورت کے ادا کرنے سے اس شخض کی طرف سے حج ادا ہونے کو مطلق طور پر بیان فرمایا ہے اسی طرح ایک اور روایت میں ایک شخص کو ارشاد فرمایا کہ تو اپنے باپ کی طرف سے حج اور عمرہ ادا کر، اس