عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
رہا ہوگیا تو وہ حجِ بدل جائز نہیں ہے ۶؎ یعنی اس کا حج فرض ادا ہونے کے لئے کافی نہیں ہے ، اب اس کو خود ادا کرنا واجب ہے اور وہ پہلا کرایا ہوا حج نفلی ہوجائے گا ۷؎ اور اگر کسی دشمن کی وجہ سے جو اس کے اور مکہ معظمہ کے درمیان ہے کسی دوسرے شخص سے حج کرایا اگر وہ دشمن اس شخص کے مرتے دم تک راستہ پر قائم رہا تو اس کا حجِ بدل جائز ہے اور اگر مرتے دم تک قائم نہیں رہا تو جائز نہیں ہے ۸؎ ۔ (۵) اُن عذرات میں سے جن کے زائل ہونے کی امید ہوتی ہے ایک عذر عورت کے لئے مَحرم کا نہ ہونا ہے پس اگر کسی عورت کا محرم نہ ہو اور نہ ہی خاوند ہو وہ اس وقت تک حج کے لئے نہ نکلے جب تک بڑھاپایا نابینا یا اپاہج ہونے وغیرہ کی وجہ سے حج کرنے سے عاجز نہ ہوجائے پس جب عاجز ہوجائے تب اپنی طرف سے حج کرانے کے لئے کسی شخص کو بھیجے اگر عاجز ہونے سے پہلے کسی سے حج کرایا تو جائز نہیں ہوگا کیونکہ اس سے پہلے تک مَحرم کے موجود ہونے کی توقع ہے اور اگر اس نے عاجز ہونے سے پہلے کسی دوسرے شخص کو بھیج کر حج کرایا اور محرم موجود نہ ہونے کا عذر اس کے مرتے دم تک قائم رہا تو اس کا وہ حج جائز ہوجائے گا جیسا کہ اگر کسی مریض نے اپنی طرف سے حج کرایا اور پھر اُس کا مرض اس کے مرتے دم تک قائم رہا تو اس کا وہ حج جائز ہے ۹؎ (۶) تجنیس و فتاویٰ قاضی خاں وغیرہ میں ہے کہ اگر کسی شخص نے نذرمانی اور کہا کہ میرے ذمہ اﷲ تعالیٰ کے لئے تیس حج ہیں پھر اُ س نے ایک ہی سال میں تیس آدمیوں کو بھیج کر حج کرادیا اس کے بعد اگر وہ حج کا وقت آنے سے پہلے مرگیا تو یہ سب حج جائز ہوجائیں گے اس لئے کہ وہ حج کا وقت آنے تک خود حج ادا کرنے پر قادر نہ ہوسکا اور اگر حج کا وقت آگیا اور وہ خود حج کرنے پر قادر ہے تو ان میں سے ایک حج باطل ہوجائے گا