عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
عذر ایسا ہے جس کے دور ہونے کی امید ہے جیسے قید و مرض و جنون اور اس نے کسی دوسرے سے حج کرایا تو یہ حج موقوف ہے پس اگر اس کا وہ عذر ایسا ہے جس کے دور ہونے کی امید ہے جیسے قید ومرض و جنون اور اس نے کسی دوسرے سے حج کرایا تو یہ حج موقوف ہے پس اگر اس کا وہ عذر موت تک باقی رہا تو اس کا فرض ادا ہوگیا ورنہ نہیں ( یعنی عذر دُور ہوجانے پر پر خود کرنا لازم ہے ۲؎ ) اور اگر وہ عذر ایسا تھا کہ عادۃً جس کے دُور ہونے کی امید نہیں ہوتی جیسے لُنجا پن اور اندھا ہونا وغیرہ تو دوسرے سے کرائے ہوئے حج کے صحیح ہونے کے لئے ایسے عذر کا موت تک باقی رہنا شرط نہیں ہے پس اگر کسی لُنجے یا نابینا وغیر ہ شخص نے کسی دوسرے شخص سے حج کرایا تو مطلق طور پر اس کے لئے جائز و کافی ہے اور اس کا فرض ادا ہوجائے گا خواہ وہ عذر موت تک قائم رہے یا پہلے زائل ہوجائے اس پر اس حج کا اعادہ مطلقاً واجب نہیں ہے۔ محیط وفتاویٰ قاضی خاں ومبسوط ومعراج الدرایہ میں اس کی تصریح کی گئی ہے اھ اور نہرالرائق میں بھی اسی کو اختیار کیا ہے اور تنویر الابصار کے متن میں بھی اسی کا اتباع کیا ہے اور شرنبلالیہ میں اس کی تحقیق کی گئی ہے اور اُس نے کافی النسفی سے اس کی تصریح نقل کی ہے، اور نابینا ہونے کا حکم اس وقت ہے جبکہ آنکھیں بن نہیں سکتیں اگرچہ حج کرانے کے بعد قدرتی طور پر اس کی آنکھیں اچھی ہوجائیں ۳؎ لیکن اگر وہ آنکھیں بن سکتیں ہیں مثلاً موتیا بند وغیرہ ہے تو یہ عذر نہ ہوگا اور آنکھ بن جانے کے بعد اب اسکو خود اپنا حج فرض ادا کرنا واجب ہوگا ۴؎ (۴) عذر خواہ آسمانی (قدرتی ) ہو یا بندوں کے فعل سے ہو دونوں صورتوں میں یکساں حکم ہے ۵؎ پس اگر کوئی شخص قید خانہ میں ہے اور اس نے کسی دوسرے شخص سے حج کرایا پس اگروہ قید خانہ میں ہی مرگیا تو اس کا حج ِ بدل جائز و کافی ہے اور اگر قید خانہ سے