عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہو جیسا کہ آگے آتا ہے اس قول کی بِنا پر بھی احرام میں آمر کی نیت کرنا کافی نہیں ہے بلکہ ادائیگی کے بعد اس کا ثواب بخشناضروری ہے جیسا کہ عبادتِ بدنیہ میں ہے اور اس کی مزید تفصیل شرائط کے آخر میں آئے گی انشاء اﷲ العزیز واﷲ اعلم بالصواب ۱؎ اور مسئلہ نیابت کی اصل یہ ہے کہ تکلیفاتِ شرعیہ (احکاماتِ شرعیہ) سے مقصود آزمائش کرنا اور مشقت میں ڈالنا ہے اور وہ بدنی عبادات میں اپنی روح واعضائے بدن کو مخصوص افعال کے ساتھ مشقت میں ڈالنا ہے تاکہ روح کو صفائی اور قربِ الٰہی حاصل ہو اور چونکہ نائب کے فعل سے اپنے آپ پر مشقت ثابت نہیں ہوتی جب تک کہ خود نہ کرے اس لئے بدنی عبادت میں مطلقاً نیابت جائز نہیں ہوتی نہ حالتِ عجز میں اور نہ حالت ِ قدرت میں، اور مالی عبادات چونکہ مال جو کہ نفس کو مرغوب ہوتا ہے فقیر کو دینے سے کم ہوجاتا ہے اور اس میں مالدار کی آزمائش اورمحتاج کی حاجت پوری کرنا ہے اور یہ بات نائب کے ذریعہ سے بھی حاصل ہوجاتی ہے اس لئے مالی عبادات میں نیابت ہرحال میں جائز ہے اور قیاس کا تقاضا یہ تھا کہ حج میں نیابت جاری نہ ہوتی کیونکہ حج بدنی اور مالی دو مشقتوں سے مرکب ہے اور بدنی عبادت میں نائب کافی نہیں ہوتا لیکن اﷲ تعالیٰ نے اپنی رحمت و فضل سے ایسے عجز کی حالت میں جو موت تک قائم رہے صرف دوسری مشقت اٹھانے یعنی مال خرچ کرنے سے اس فرض ( یعنی حج) کی ادائیگی اس کے ذمہ سے ساقط ہوجانے کی اجازت دیدی ہے اور وہ یہ کہ وہ حج کا خرچہ اس شخص کو دے جو اس کی طرف سے حج ادا کرے لیکن اگر وہ خود حج کرنے پر قادر ہے تو معذور نہیں سمجھا جائے گا اور اس کی طرف سے نائب کے ادا کرنے سے ادا نہیں ہوگا کیونکہ اس حالت میں اس کا خود حج ادا نہ کرنا اور دوسرے سے کرانا اﷲ تعالیٰ کے حکم پر اپنے نفس پر آسانی کرنے کو ترجیح دینا ہے اور اسلئے