عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہے اس کے حق میں یہ عبادت مرکبہ بن جاتی ہے جیسا کہ آگے آتا ہے، مؤلف) اور غنیہ میں اتقانی سے منقول ہے کہ جہاد میں نیابت ہر گز جائز نہیں ہے اس لئے کہ جب جنگ واقع ہوجائے تو ہر مسلمان پر جہاد فرض ہوجاتا ہے اس کے بعد جو شخص بھی جہاد میں عملی حصہ لیتا ہے وہ اسی کی طرف سے واقع ہوتا ہے کسی دوسرے کی طرف سے ادا نہیں ہوسکتا ۔ اور اگر عبادتِ مرکبہ نفلی عبادت ہو جیسے نفلی حج اور نفلی عمرہ تو اس میں عجز و قدرت دونوں حالتوں میں نیابت جاری ہوسکتی ہے عجز یا کوئی اور چیز جو حج فرض اور عمرہ اسلام میں شرط ہے نفلی حج و عمرہ میں شرط نہیں ہے البتہ نائب کااہل ہونا یعنی مسلمان وعاقل اور سمجھ دار ہونا ضروری ہے اور اگر اس کو حج ِ نفل کا امرکیا گیا ہو تو احرام میں مامور کی نیت کا ہونا بھی ضروری ہے اوراگر امر کے بغیر نفلی حج ادا کرے تو احرام میں اس کی طرف سے نیت کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ حج ادا کرنے کے بعد اس کا ثواب اس شخص کو ہدیہ کردے کیونکہ وہ حج بالاتفاق حج کرنے والے کی طرف سے ادا ہوگا وہ اس دوسرے شخص کی طرف سے حج کرنے والا نہیں ہے بلکہ اپنے حج کا ثواب اس کو ہدیہ کرنے والا ہے اور ثواب اس کو حج ادا کرنے کے بعد حاصل ہوگا پس احرام میں اسکی طرف سے حج ادا کرنے کی نیت کرنا باطل ہے کیونکہ اس دوسرے شخص کو ثواب اسی وقت حاصل ہوگاجب حج کرنے والا حج ادا کرنے کے بعد اس کا ثواب اس کو بخش دے گا جیسا کہ والدین کی طرف سے حج کرنے کے مسئلہ میں فقہا نے کہا ہے بلکہ امر کرنے کی صورت میں صحیح قول کی بِنا پر اس کی طرف سے نیت کافی ہوگی پس اس صحیح قول کو حاکم نے ذکر کیا ہے کہ حجِ نفل آمر کی طرف سے واقع ہوگا اور دوسرا قول جس میں کہا گیا ہے کہ وہ حج بالاتفاق مامو ر کی طرف سے واقع ہوگا اور آمر کو مالی خرچ کرنے کا ثواب ملے گا جبکہ مامور نے اس کا مال خرچ کیا