عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
وہ شخض حج ساقط ہونے کی رعایت کی بجائے عذابِ الٰہی کا مستحق ہوگا ۲؎ پس حج میں عجز کے وقت مال کی جہت سے نیابت جائز ہوئی اور قدرت کے وقت بدن کی جہت سے نیابت جائز نہ ہوئی ۳؎ لیکن نفلی حج میں بدنی ومالی دونوں مشقتوں میں سے کوئی ایک بھی واجب نہیں ہے جب اس کو ان دونوں مشقتوں کا ترک کرنا جائز ہے تو اس کو اﷲ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کے لئے ان دونوں میں سے کسی کو برداشت کرنا جائز ہے یہی وجہ ہے کہ نفلی حج و نفلی عمرہ کسی دوسرے سے کرانا جائز وصحیح ہے خواہ وہ خود قادر ہو یا نہ ہو ۴؎ (۳)جاننا چاہئے جس شخص پر حج فرض یا واجب ہوگیا یعنی حجِ اسلام اور قضا یا نذر کا حج اور وہ خود بنفسہ اس کے ادا کرنے پر قادرتھا اس کو ادا کرنے کا وقت ملا لیکن ادا نہیں کیا بعد میں وہ خود اس کے ادا کرنے پرقادر نہیں رہا یہاں تک کہ موت کا وقت قریب آگیا یا اس کا خوف لاحق ہوگیا تو اس پر کسی دوسرے شخص سے حج کرانا فرض ہے خواہ اپنی زندگی میں کرائے یا مرنے کے بعد حج کرانے کی وصیت کرجائے اس پر وصیت کرنا واجب ہے اور وصیت کرنا اسوقت واجب ہے جب کہ حج کی ادائیگی میں تاخیر کرے یعنی جس سال حج فرض ہوا اس سال حج کے لئے روانہ ہوتے بلکہ دوسرے یا تیسرے سال جائے اور راستہ میں فوت ہوجائے یا بالکل روانہ ہی نہ ہو اور فوت ہوجائے لیکن اگر وہ حج فرض ہوتے ہی اسی سال حج کو جاتے ہوئے راستہ میں مرگیا تو اس کے اوپر سے حج ساقط ہوجائے گا اور اس پر حج کرانے کی وصیت کرنا واجب نہیں ہوگا اس لئے کہ اس نے و اجب ہونے کے بعد حج کی ادائیگی کے لئے روانہ ہونے میں تاخیر نہیں کی اور اس بارے میں اس سے کوئی کوتاہی سرزد نہیں ہوئی ،تجنیس اور فتاویٰ سراجیہ میں اسی طرح ہے ، امام ابن الہمامؒ نے کہا ہے کہ یہ قید حسن ہے اس کو یاد رکھنا چاہئے اور اگر اس کو حج فرض ہونے کے بعد حج ادا