عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مؤکل (مکلف) نے زکوٰۃ کی نیت کرلی تو ظاہر یہ ہے کہ جائز ہے جیسا کہ اگر کسی نے خود فقیر کو رقم دی اور ابھی وہ رقم فقیر کے پاس موجود ہے کہ اس نے اس رقم میں زکوٰۃ کی نیت کرلی تو جائز ہے پس سمجھ لیجئے۔ اور محض بدنی عبادت میں مطلقاً یعنی قدرت و عجز کسی حال میں بھی نیابت جاری نہیں ہوسکتی (چنانچہ حدیث میں ہے :’’ لا یصم احد عن احد ولا یصل احد عن احد اخرجہ النسائی عن ابن عباس رضی اﷲ عنھما ‘‘یعنی کوئی شخص کسی دوسرے شخص کی طرف سے نہ روزہ رکھے نہ نماز پڑھے ۱؎ ) اور جو عبادت بدنی اور مالی سے مرکب ہے اگر وہ واجب ہے جیساکہ حج فرض یا حج منذور تو اس میں صرف عجز کی حالت میں نیابت جاری ہوسکتی ہے حالتِ قدرت میں جاری نہیں ہوگی پس خود قادر ہونے کی حالت میں نائب کے ذریعہ کرانا جائز نہیں ہے اور خود قادر نہ ہونے کی صورت میں نائب کے ذریعہ کرانا جائز ہے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ عجز و عذر اس کی موت تک قائم رہے اس لئے کہ حج تمام عمر میں ایک بار فرض ہے حتیٰ کہ اگر کسی غیر دائمی عجز کی وجہ سے کسی دوسرے شخص سے حج کرایا تو عذر دور ہونے کے بعد اس کا اعادہ یعنی خود ادا کرنا اس پر لازم ہوگا ۲؎ اور جہاد بھی اسی قسم سے ہے یعنی مرکبہ عبادت ہے محض بدنی عبادت نہیں ہے جیسا کہ بعض نے خیال کیا ہے بلکہ جہاد حج سے بدرجہ اولیٰ مرکبہ عبادت ہے کیونکہ ا سکے لئے آلاتِ حرب کا ہونا لازمی ہے اور حج کبھی مال کے بغیر بھی ادا ہوجاتا ہے جیساکہ مکی کا حج اور اس کی تمام تحقیق شرح ابنِ کمال میں ہے ۳؎ (اور بدائع وبحرالرائق میں جہاد کو محض بدنی عبادات میں شمار کیا ہے شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ جہاد فی نفسہٖ تو بدنی عبادت ہے اور نفیر عام پر ہر شخص پر واجب ہوجاتا ہے خواہ اس کے پاس آلاتِ حرب اور اس کے لئے مال موجود ہو یا نہ ہو البتہ جو شخص آلاتِ حرب یا مال بھی جہاد میں خرچ کرتا