عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اھ اور یہ اقرب الی الصواب ہے اور اسی لئے مکہ کا رہنے والا شخص اگر عرفات تک پیدل چلنے پرقادر ہوتو اس کے حق میں حج فرض ہونے کے لئے مال کاہونا شرط نہیں ہے اور فتاویٰ قاضی خاں میںہے کہ نماز و روزہ کی طرح حج بھی بدنی عبادت ہے اھ ۳؎ یعنی اس لئے کہ کوئی چیز اپنی شرط کے ساتھ مرکب نہیں ہوتی، اور اس کے جواب میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ کسی چیز کا اپنی شرط کے ساتھ مرکب نہ ہونا مرکباتِ حقیقیہ کے بارے میں ہے مرکباتِ اعتبار یہ کے بارے میں یہ اصول نہیں ہے جیسا کہ حواشی مسکین میں ہے کہ اولیٰ وہ ہے جو درِمختار کے حاشیہ میں ہے یعنی حج میں مال کا ہونا اعتبارِ قوی کے ساتھ معتبر ہے کیونکہ غالب یہی ہے کہ مال کے بغیر حج کی ادائیگی حاصل نہیں ہوتی پس یہ گویا کہ حج کا جزو ہے ۴؎ (۲) پہلی قسم کی عبادت یعنی جو محض مالی عبادت ہے اس میں مکلف کی طرف سے قدرت اور عجز یعنی اختیار و اضطر ار دونوں حالتوں میں نیابت جاری ہوسکتی ہے یعنی خواہ وہ خود اس کے ادا کرنے پر قادر ہو یا نہ ہو نائب کے ذریعہ سے ادا کی جاسکتی ہے اگرچہ وہ نائب ذمی کافر ہو اس لئے کہ وکیل بنانے والے کی نیت کا اعتبار ہے اگرچہ وہ وکیل کو مال دینے کے وقت نیت کرے، وکیل کی نیت کا اعتبار نہیں ہے کہ کیونکہ اصل ( مکلف) کی نیت کا ہونا شرط ہے ا سکے نائب کی نیت کا ہونا شرط نہیں ہے خواہ وہ مؤکل اپنے وکیل کو مال ادا کرتے وقت نیت کرے یا جب وکیل فقرا کو مال دے اس وقت موکل نیت کرے یا ان دونوں صورتوں کے درمیانی عرصہ میں نیت کرے اسی طرح اگر زکوٰۃ کو اپنے مال سے جدا کرتے وقت وکیل کو دینے سے پہلے نیت کرے یا وکیل نے فقیر کو وہ مال دیدیا اس کے بعد جب تک فقیر کے پاس وہ مال موجود ہے اور اس نے اس کو خرچ نہیں کیاکہ