عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اختلاف اس بارے میں نہیں ہے کہ صاحبِ عمل کو ایساکرنا جائز ہے یا نہیں جیسا کہ ظاہر ہے بلکہ یہ اختلاف اس بارے میں ہے کہ اس کے ثواب بخشنے سے وہ ثواب دوسرے کے لئے ہوجاتا ہے یا نہیں ہوتا بلکہ اس کا ثواب بخشنا لغو ہوجاتا ہے ۳؎ یعنی یہ اختلاف اس بارے میں ہے کہ دوسرے آدمی کو اس کا ثواب پہنچتا ہے یا نہیں ۴؎ اور معتزلہ نے ہر قسم کی عبادت کے ایصالِ ثواب میں اختلاف کیا ہے (یعنی ان کے نزدیک مالی یا بدنی یا مرکب کسی قسم کی عبادت کا بھی ثواب فاعل کے سوا کسی دوسرے کو نہیں پہنچتا ) اور انہوں نے اﷲ تعالیٰ کے اس قول ’’لَیسَ لِلْاِنْسَانِ لاَّ مَاسَعیٰ‘‘ (ہر انسان کے لئے اس کی اپنی کوشش کے سوا اور کوئی چیز نفع دینے والی نہیں ہے) سے سند پکڑی ہے اور کہا ہے کہ دوسرے شخص کی سعی اس کی سعی نہیں ہے ۵؎ اور ہمارے فقہا کے نزدیک قرآن مجید و حدیث شریف سے واضح دلائل موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر شخص اپنے نیک اعمال کا ثواب دوسرے شخص کو ہدیہ کرسکتا ہے ، چنانچہ قرآن مجید میں اس کا ثبوت یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’ رَبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْرًا‘‘ (اور آپ کہئے کہ اے میرے رب میرے والدین پر رحم فرما جیسا کہ ان دونوں نے مجھے بچپن میں پرورش فرمایا ہے) اس آیتِ مبارکہ میںاﷲ تعالیٰ نے بیٹے کو والدین کے لئے دعا کرنے کا حکم فرمایا ہے (اگر ایک انسان کا عمل دوسرے کو مفید نہ ہوتا تو بیٹے کی دعا والدین کے حق میں بے فائدہ ہوتی حالانکہ یہ غلط ہے ۶؎ ) اور دوسری جگہ اﷲ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ ملائکہ کرام مؤمنین کے لئے استغفار کرتے ہیں چنانچہ ارشاد فرمایا ہے ’’ وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا‘‘(اور فرشتے ایمان والوں کے لئے استغفار کرتے ہیں ) نیز ارشاد ہے ’’ رَبَّنَا وَسِعْتَ کُلَّ شَیْئٍ رَّحْمَۃً وَّ عِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِّیْنَ تَابُوْ وَاتَّبَعُوْ اسَبِیْلَکَ الی قولہ وَقِھِمُ السَّیِّئٰاتِ ‘‘(اے ہمارے رب ! تیری رحمت اور علم میں ہر چیز