عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہے کیونکہ اس طرح اس کو دو عمروں میں افعال کے اعتبار سے جمع کرنا لازم آئے گا اور یہ ممنوع ہے پس اگر وہ اس سال حج نہ کرے تو اس پر ان دونوں کی قضا واجب ہوگی لیکن اگر احرام والے عمرہ سے فارغ ہونے کے بعد ابھی وقوفِ عرفہ کا وقت باقی تھا اور اس نے چھوڑے ہوئے حج کا احرام باندھ کر اسی سال وہ حج قضا کرلیا تو جو عمرہ حج چھوڑنے کی وجہ سے واجب ہوتا ہے وہ اس سے ساقط ہوجائے گا یعنی اب اس کا کرنا اس پر واجب نہیں ہوگا کیونکہ اب وہ فائت الحج کے حکم میںنہیں ہے بلکہ محصر کے حکم میں ہے پس اگر محصر احرام ِ حج سے حلال ہوجائے اور پھر اسی سال حج کرلے تو اب اس پر عمرہ کرنا واجب نہیں ہوتا لیکن اسی سال متروکہ حج کرلینے کی صورت میں اس پر دمِ جبر بھی واجب ہوگا اس لئے کہ اس کا یہ حج تمتع ہوجائے گا اور وہ مکی ہے اور مکی کے لئے تمتع کرنا منع ہے اور اس کو رفض کا حکم ہے پس اس پر دو دم واجب ہوں گے ایک حج کے چھوڑنے کا اور دو سرا چھوڑنے کے بعد پھر حج کرنے کا ۱؎ )بخلاف دوسرے سال حج کرنے کے (کہ اس صورت میں حج کے مہینوں سے پہلے لازم شدہ عمرہ جو حج ترک کرنے کی وجہ سے واجب ہوا تھا کرسکتا ہے اس کے بعد حج قضا کرے اور اگر اسی سال میں رفض حج کا عمرہ کرلے تو بھی ہوسکتا ہے لیکن حج کرنے کے بعد جب ایامِ تشریق بھی گزرجائیں تب کرے اور آئندہ سال فقط حج کرے ۲؎ ) اور امام ابو یوسف ومحمدرحمہمااﷲ کے نزدیک صورتِ مذکورہ میں عمرہ کو ترک کرنا پسندیدہ و اولیٰ ہے پس اگر اس نے عمرہ کو ترک کردیا تو ترکِ عمرہ کی وجہ سے اس پر دمِ رفض اور صرف عمرہ کی قضا واجب ہوگی اگرچہ وہ اس عمرہ کو اسی سال قضا کرلے کیونکہ بخلاف حج کے عمرہ کا ایک سال میں مکرر اداکرنا جائز ہے اور اگر حج یا عمرہ کو ترک نہ کیا بلکہ دونوں کو ادا کیا تو کراہت کی برائی کے ساتھ دونوں صحیح و جائز ہوجائیں