عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
پہلے حج کا احرام باندھا ہے اور اہلِ مکہ کے لئے عمرہ اور حج کو جمع کرنا منع ہے اور اس لئے بھی دم واجب ہوگا کہ جس شخص کو حج کا ترک کرنا لازم ہوا اور اس نے اس کو ترک کردیا تو اس پر دمِ رفض واجب ہوتا ہے اور اس پر چھوڑے ہوئے حج کی قضا اور حج چھوڑنے کے سبب سے ایک عمرہ کرنا واجب ہوگا اور مبسوط میں ہے کہ وہ ان دونوں میں سے کسی کو بھی ترک نہ کرے اس لئے کہ اکثر کے لئے کُل کا حکم ہوتا ہے پس وہ ایسا ہے گو یا کہ اس نے عمر ہ سے حلال ہونے کے بعد احرام باندھا ہے اور اس پر دمِ جمع واجب ہوگا پس وہ اس میں سے نہ کھائے، اسبیجابی نے اس کو ظاہر الروایت قراردیا ہے لیکن صاحبِ ہدایہ نے اس کو اختیار کیا اور درست کہا ہے کہ وہ حج کو ترک کردے کیونکہ اب عمرہ کا ترک کرنا دشوار و متعذر ہے۔ اور اگر مکی نے عمرہ کے طواف کااقل حصہ یعنی ایک یا دو یا تین چکر ادا کرنے کے بعد حج کا احرام باندھا تو اس میں ہمارے فقہا کا ختلاف ہے، امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک حج کا ترک کرنا اولیٰ ہے اس طرح پر کہ مثلاً جب عمرہ کے افعال ادا کرکے حلق کرائے تو اسوقت حج ترک کرنے کی بھی نیت کرلے اگرچہ وہ اس حلق سے عمرہ سے بھی از خود حلال ہوجائے گا اور ترکِ حج کے لئے صرف زبان سے ترک کالفظ کہہ لینا یا دل میں نیت کرلینا کافی نہیں ہے بلکہ بطریقہ مذکورہ ترک کرے ( احرام ترک کرنے کی تفصیل آگے آتی ہے، مؤلف) اور اس پر ترکِ حج کی وجہ سے دمِ رفض واجب ہوگا اور اس پر اس حج کو قضا کرنا اور ایک عمرہ کرناواجب ہوگا ،حج کی قضا اس لئے ہے کہ شروع کرنے کی وجہ سے وہ اس پر واجب ہوگیا ہے اور عمرہ کی قضا اس لئے ہے کہ وہ فائت الحج کے حکم میں ہے اور فائت الحج عمرہ کے افعال ادا کرکے حج کے احرام سے باہر ہوتا ہے اور یہاں اس صورت میں اس کو عمرہ کے افعال ادا کرکے حلال ہو نا دشوار